تفسیرمفتاح القرآن کا ایک مطالعہ (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء )

تفسیرمفتاح القرآن کا ایک مطالعہ (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء )

   ڈاکٹرمحمد غطریف شہباز ندوی ٭

تفسیرمفتاح القرآن مولفہ علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒبیسویں صدی میں انجام دیاگیاایک عظیم قرآنی کارنامہ ہے ۔یہ مقالہ اسی تفسیر کے معروضی تعارف پر مشتمل ہے ۔اس میں محاکمہ اورتجزیہ کی کوشش نہیں کی گئی ہے بس اس کے تعارف تک ہی محدودرہاگیاہے۔

تفسیرکا مادہ ف س رہے (۱) جس کا مطلب ہے معنی ومفہوم کی وضاحت کرنااصطلاحاقرآن کریم کے معانی ومطالب کی توضیح وتشریح کو تفسیر یاعلم تفسیرکہتے ہیں۔اصول تفسیرمیں اصول فقہ ،اصول کلام اورعلوم عربیہ سب سے مددملتی ہے(۲)

تفسیرکی شرائط : اس کی شرائط میں سب سے پہلے تقوی ،تصحیح نیت اوراخلاص قلبی جیسی معنوی صفات شامل ہیں اس کے بعدعربی علوم ،ادب ،بلاغت ،نحووصرف ،لغت اوراسالیب قرآن کامطالعہ اورادب جاہلی ادب پر عبورہے ۔اِس کے علاوہ تفسیری روایات ،احادیث کے ذخیرہ سے گہری واقفیت وغیرہ شامل ہیں(۳)۔تفسیرکی روایتی طورپر دوقسمیں کی جاتی ہیں تفسیربالرائے اورتفسیرماثور۔تفسیربالرائے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی عقل سے پہلے سے کوئی معنی ومفہوم متعین کرکے قرآنی الفاظ کو کھینچ تان کر اس کے مطابق کرنا ،یہ فعل حرام ہے ۔( 4 )مگراس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ آدمی قرآن کے سلسلہ میں عقل سے کام لیناچھوڑدے اورغوروفکرنہ کرے ۔ایساسمجھناخودقرآن کے خلاف ہے جوعقل سے کام لینے اور غوروفکراورتدبرپرابھارتاہے ۔جیساکہ فرمایا: افلایتدبرون القرآن ام علی قلوبہم اقفالہا (۵)

تفسیرماثوروہ ہے جس میں تفسیری روایات ،اقوال صحابہ اور تابعین کے تفسیری اقوال اوررائیں نقل کی جاتی ہیں۔اورتفسیربالرائی المحمود(پسندیدہ )وہ ہے جس میں مفسرماثورتفسیری اقوال کے ساتھ اپنی رائے بھی بیان کردیتاہے یامختلف اقوال کا محاکمہ کرکے ترجیحی رائے ظاہرکرتاہے جیساکہ امام ابن جریرطبریؒ ،اورابن کثیرؒنیز امام رازیؒ تفسیرکبیرمیں بہت سی جگہوں پر کرتے ہیں۔(6)

اردوتفسیریں: تفسیرکا اصل اوراوریجنل ذخیرہ عربی زبان میں ہے مگراس کے ساتھ ہی اردومیں بھی تفسیراورعلوم قرآن پر بڑاکام ہواہے ۔ خاص کربیسویں صدی میں۔اردومیں لکھی گئی اہم اورنمایاں تفسیروںمیں تفسیرعثمانی،ترجمان القرآن ،بیان القرآن،تفسیرثنائی ،معارف القرآن ،تفسیر ماجدی ،تدبرقرآن ،تفہیم القرآن اورتفسیردعوة القرآن وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ اردوترجموں میں سب سے اہم ترجمہ شاہ عبدالقادردہلویؒ کا ہے جس کوبجاطورپر ام التراجم کہاجاتاہے ۔ان تفاسیرمیں سے ہرایک تفسیرکی اپنی خصوصیات وامتیازات ہیں مگرتفسیرمفتاح القرآن جس کا یہاں مطالعہ پیش نظرہے ان تمام تفاسیر پر یک گونہ فوقیت رکھتی ہے ۔اس کے اندربعض وہ خصوصیات ہیں جواسے پورے تفسیری ذخیرہ میں ممتاز کرتی ہیں۔

مفسرکا تعارف: تفسیرمفتاح القرآن کے مولف علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ (۱۹۲۳ء۔۲۰۰۵ء) نے میرٹھ شہر میں علوم عربیہ واسلامیہ کی تحصیل مولاناشاہ اخترخاں امروہوی ؒسے حاصل کی ۔اوردورہ حدیث ازہرہند دارالعلوم دیوبندسے کیا،جہاں انہوں نے شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی ،مولانافخرالحسن مرادآبادیؒ ،علامہ ابراہیم بلیاوی اورشیخ الادب مولانااعزازعلی امروہویؒ جیسے اساطین علم وعمل سے شرف تلمذحاصل کیا۔ علامہ قرآ ن وحدیث ،فقہ اورعلوم عربیت میں مطلق امامت کے درجہ پر فائزتھے ۔انہوں نے ساری عمردارالعلوم ندوة العلماءلکھنواورمدرسة الاصلاح سرائمیر سمیت مختلف بڑے عربی مدارس میں بخاری سمیت حدیث کی اہم کتابوں کا درس دیا،انہوں نے بخاری اورمسنداحمدبن حنبل کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ساری زندگی قرآن پرغوروفکراورمطالعہ وتحقیق میں گزاری اوراس دوربلاخیز میں شہرت وناموری کے ہرپہلوسے کٹ کراورزخارف دنیاسے مونھ موڑکرگوشہ نشینی کی زندگی گزاری ۔تفسیرمفتاح القرآن ان کی ساری عمرکے مطالعہ وتدبرکا نچوڑہے ۔(۷)۔اگلی سطورمیں ہم تفسیرمفتاح القرآن پر روشنی ڈالتے ہیں،مقالہ میں کوشش کی جائے گی کہ یہ مطالعہ جامع ہو اور قاری کے سامنے اس تفسیرکی ایک مکمل تصویرآجائے۔

تفسیرمفتاح القرآن کی تصنیف کا آغاز علامہ میرٹھی ؒنے 2شعبان 1384ھ میں کیاتھا اور25جمادی الثانی 1405ھ میں تقریبا 21سال کی مدت میں یہ تفسیرمکمل ہوئی ۔ابھی تک اس کے صرف چندہی اجزاءشائع ہوسکے ہیں ۔سورہ فاتحہ سے سورہ انعام تک الگ لگ اجزاءمیں اوردرمیانِ تفسیرسے سورہ نورالگ شائع ہوئی ہے جس میں واقعہ افک کی تحقیق ہے ۔اس مطالعہ میں اس تفسیر کے مطبوعہ اجزاءکے ساتھ ہی اس کے مسودات کا حوالہ بھی آئے گا،کیونکہ یہ مسودات راقم الحروف کی تحویل میں ہیں اوراس کو ان کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہے ۔اوروہ فاونڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز کی جانب سے اس کی اشاعت کے لیے کوشاں ہے۔مطبوعہ اجزاءجومکتبہ ازہریہ رائدھنہ میرٹھ سے شائع ہوئے ہیں ،اب فاونڈیشن میں ہی دستیا ب ہیں۔راقم کی نظرمیں اس تفسیرکے امتیازی اورنمایاں پہلودرج ذیل ہیں:

تفسیری روایات کا تحقیقی مطالعہ : یہ اس تفسیرکا وہ علمی پہلوہے جس میں یہ تفسیرتمام قدیم وجدیدعربی واردوتفاسیرپر فوقیت رکھتی ہے ۔اوراس کی وجہ يه ہے کہ مفسرگرامی علوم قرآن کے ساتھ ہی علوم حدیث کے بھی امام تھے ۔اورعلم الحدیث پر ان کو اتناعبورحاصل تھا کہ انہوں نے صحیحین پر بھی نقدکیاہے ۔مسلم پر توانہوں نے تنقیدی کام شروع ہی کیاتھا کہ اللہ تعالی ٰکے ہاں سے بلاواآگیا،مگربخاری پر انہوں نے عربی میں اپنی شرح بخاری موسوم بہ تحفة القاری بشرح صحیح البخاری میں تفیصل سے اوراردومیں اختصارکے ساتھ اپنے تنقیدی مطالعہ کو دوجلدوں میں شائع کردیا ہے ۔ (۸) اصل میں تفسیری روایات کا بیشترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے ،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے ۔يہاں تک بخاری میں تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثارجمع کیے ہیں ،ان میں امام بخاری نے تقریبامکمل طورپر علی بن ابی طلحہ ،نافع اور دوسرے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتمادکرلیاہے۔امام احمدکا مشہورقول ہے کہ : تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں : ثلاثة لااصل لہا: المغازی والملاحم والتفسیر۔ابن تیمیہؒ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے ای لااسنادلہا،اوراس کے بعدلکھاہے لان الغالب علیہا المراسیل کہ تفسیری روایات کا بیشترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے ۔(۹) لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور يہاںتک کہ بخاری ومسلم میں بھی جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں ان میں سے بھی اکثروبیشترغلط سلط رواتیں ہیں جیساکہ علامہ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے ثابت ومحقق کردیاہے۔ تفسیری روایات کے تحقیقی مطالعہ وتجزیہ کے اس کام کو مزیدآگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

الفاظ قرآنی کی تحقیق : مفسرگرامی الفاظ قرآنی کی مختصرتحقیق کرتے جاتے ہیں۔اوربہتیری جگہوں پر انہوں نے

 قرآنی نظائراوراستعمالات کو بھی جمع کردیاہے۔مثال کے طورپر ملاحظہ ہو حروف مقطعات کی بحث ….(۱۰) اسی طرح صبرکی تفسیرجہاں کرتے ہیں تواس کے متعدد نظائرجمع کردیتے ہیں۔(مثال کے طورپرملاحظہ ہوصفحہ 396مفتاح القرآن) اورنمونہ کے طورپر درج ذیل مثال ملاحظہ ہو:

” ننجیجک اس آیت میں نجوة سے ماخوذ ہے جو اونچی جگہ کے معنی میں ہے،لسان العرب میں ہے ”قولہ تعالی ”فالیوم ننجیک ببدنک “ای نجعلک فوق نجوة من الارض فنظہرک اونلقیک علیہا لتعرف لانہ قال ببدنک ولم یقل بروحک،قال الزجاج معناہ نلقیک عریانالتکون لکن خلفک عبرة “ پس ببدنک کا مطلب یہ ہے کہ ہم تجھے ننگا دھڑنگااونچی جگہ ڈال دیں گے ۔اوربعض اہل علم نے اس کا مطلب یہ بتایاہے کہ یہ موت وہلاکت سے کنایہ ہے کیونکہ زندہ شخص پانی سے تیرکراورہاتھ پاﺅں مارکرباہرنکلتاہے اورمردہ شخص کا بدن پانی پر تیرتارہتاہے پانی کی موجیں اس کے بے حس وحرکت بدن کو اِدہراُدھربھی منتقل کردیتی ہیں “(لسا ن العر ب ،مادہ نجا) (۱۱)

وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہو( یونس : 107 )میں مس کی تشریح میں لکھاہے :

واضح رہے کہ مس کے معنی ہیں کسی چیز کو چھونایعنی کسی شخص یاکسی چیز یاکسی حالت کا کسی کو بلاواسطہ لگ جانااوراس سے متصل ہوجانا،اسی لیے مردوعورت کے جماع کو بھی مس کہاجاتاہے ،سورة البقرة ع ۳ اورسورة الاحزاب ع 4 میں یہ لفظ اسی معنی میں آیاہے ۔جہاں بیوی کو جماع سے پہلے طلاق دینے کاذکرہے ۔آسیب زدگی ودیوانگی کوبھی مس کہاجاتاہے ۔سورة البقرہ میں ہے ،الذی یتخبطہ الشیطان من المس ۔(275 )آیات قرآنیہ کا تتبع کرنے سے ثابت ہواکہ فعل مس کی اسنادانسان ،شیطان ،حسنہ ،نار،عذاب ،شر،ضرائ،ضُر،باساءکی طرف ہوئی ہے ۔ اوردوآیتوں میں اس کی اسناد اللہ تعالی نے خاص اپنی ذات کی طرف فرمائی ہے ۔ارشادہے کہ ولاتمسوہابسوءفیاخذکم عذاب الیم (الاعراف: 73 ) ان تمسسکم حسنہ تسوئہم (آل عمران :120) ذوقوامس سقر(القمر: 28 ) لن تمسناالنارالاایامامعدودة (البقرہ : 80)لیمسنکم مناعذاب الیم (یٰسین:18) انی اخاف ان یمسک عذا ب من الرحمن (مریم : 45 ) واذا مسہ الشرفذودعاءعریض (حم السجدة :51 ) واذا اذقنا الناس رحمة من بعدضراءمستہم (یونس :21) واذا مس الانسان الضُردعانا(یونس :12 ) مستہم الباساءوالضراء (البقرة :214 ) اوروہ دونوں آیتیں جن میں فعل مس کی اسنادحق تعالی ٰ کی طرف ہے ۔یہ ہیں وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہووان یمسسک بخیرفہوعلی کل شیءقدیر(الانعام: 17 )وان یمسسک اللہ بضرفلاکاشف لہ الاہووان یردک بخیر فلا راد لفضلہ (یونس :107 ) (آیات کے نمبرمصنف ِمقالہ نے ڈالے ہیں )ان دونوں آیتوں میں خطاب نبی کریم ﷺ سے ہے ۔اِ سناد سے واضح ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب پاک ﷺ سے ہرحال میں بلاواسطہ تعلق ہے۔مضرت کی حالت میں بھی اورمنفعت کی حالت میں بھی ۔ اس تعلق کی عظمت کاہم صرف احساس ہی کرسکتے ہیں مگراس کی شرح وتوضیح سے ہم قطعاعاجزہیں۔البتہ تقریباللفہم ایک مثال بیان کرتا ہوں۔بسااوقات بتقاضائے محبت ایک محب صادق اپنے ہاتھوںسے اپنے محبوب کی آرائش وزیبائش کرتاہے۔اس کے سرورخ پر عطر لگادیتاہے،اُسے دل پسندوفاخرلباس پہنادیتاہے۔اللہ کا اپنے حبیب ﷺ کو خیرکے ساتھ چھونااسی قبیل سے سمجھ لےجئے ۔اورکبھی محب اپنے محبوب کو چھیڑکرلطف اٹھاتاہے اس کے جسم میں ہلکی سی چٹکی لے کریاگدگدی کرکے اُسے ایک لذیذسی تکلیف پہنچاتاہے حالانکہ واقعی تکلیف پہنچانااسے حاشیہ  خیال میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالی ٰ کا اپنے حبیب ﷺ کوضُرکے ساتھ چھونا کچھ اسی انداز کا ہوگا۔بہرکیف اللہ تعالی کا آپ سے بلاواسطہ تعلق تھا خواہ آپ کو کسی ضُرسے سابقہ پڑتایاکوئی خیرآپ پر نثارہوتی فرق یہ تھاکہ آپ کو ضُرپہنچانامقصودحق نہ تھا اورخیرسے نوازنا مقصودومرادتھابس اس مقام پر اس سے زایدلکھنے کی نہ صلاحیت ہے نہ طاقت ۔اللہم صل علی رسولک وحبیبک وبارک وسلم (۱۲)

صحیح احادیث سے استفادہ : مفسرصحیح احادیث سے استفادہ اوراستدلال ناگزیرسمجھتے ہیں ۔مثلاسیطوقون مابخلوابہ یوم القیامة(آل عمران : 180) کی تفسیرمیں حضرت ابوہریرة سے مروی حدیث نقل کی ہے من آتاہ اللہ مالافلم یود زکاتہ مثل لہ شجاعا اقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامة یاخذبلہزمتیہ یعنی شدقیہ یقول انامالک اناکنزک(اخرجہ البخاری فی صحیحہ عن عبدالرحمن بن عبداللہ بک دینارعن ابیہ عن صالح عن ابی ہریرة واخرجہ ابن حبان ،اورامام احمدونسائی نے بھی اسی مضمون کی حدیث مرفوع روایت کی ہے۔(۱۳) یعنی جو شخص دنیامیں زکاة ادانہ کرے توقیامت کے دن ایک گنجازہریلاسانپ اس کی گردن میں ڈال دیاجائے گاوہ دونوں جبڑوں سے اسے تھام کرکہے گامیں تیرامال ہوں میں تیراخزانہ ہوں۔ مگراحادیث کی صحت وسقم کے سلسلہ میں وہ سلف کی رایوں پر کلی اعتمادنہ کرکے خودہر حدیث وروایت کی تحقیق ضروری خیال کرتے ہیں اور اس کا انہوں نے پوری تفسیرمیں زبردست التزام کیاہے ۔

اسرائیلیات :اسرائیلات سے یہ تفسیربالکل خالی ہے۔اورصحابہ وتابعین کے تفسیری اقوال میں بھی مفسرگرامی صرف انہیں کو قبول کرتے ہیں جو نقل صحیح کے علاوہ قرآن کے نظم اوراس کے سیاق وسباق میں فٹ بیٹھتے ہیں۔ورنہ ان کو بھی قطعی طورپر مستردکریتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں اس اصل پر عمل ہے کہ الحجة فیماروی الصحابی لافیمارأ (صحابی کی روایت حدیث میں حجت ہے مگراس کی رائے کی اتباع کرناضروری نہیں )۔

تفسیرکے ایک اسکالرڈاکٹرسیدشاہدعلی کے بقول وہ”ضعیف وموضوع روایات جن کا چرچابہت عام ہے کی نشاندہی کرکے مضبوط دلیل کے ساتھ ان کا ردکرتے ہیں۔جیسے سورہ بقرہ میں قصہ آدم کے تحت لکھتے ہیں: ”يہاں یہ بات سمجھ لینی چاہےے کہ اللہ تعالی  کا ارشاد ےاٰآدم اسکن انت وزوجک الجنة) البقرہ :25)صراحتہ یہ بتارہاہے کہ جنت میں سکونت پذیرہونے پہلے ہی حضرت آدم کی بیوی حواپیداکردی گئی تھیں،لہٰذا وہ روایات غلط ہیں جن میں یہ مذکورہے کہ آدم کا جنت میں تنہاجی نہیں لگتاتھااوروہ بے چین سے رہتے تھے تب ان کی تانیس وتالیف کے لیے حواکو جنت میں ہی پیداکیاگیا۔یہ اسرائیلی کہانیاں ہیں ،اس بارے میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں“۔(14)

قدیم وجدیدمفسرین سے استفادہ : مفسرگرامی قدیم مفسرین میں امام رازی ،زمخشری ،ابوحیان اندلسی اورابومسلم اصفہانی سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اوراس بارے میں وہ کسی مسلکی ومشربی تعصب سے کام نہیں لیتے زمخشری اورابومسلم اصفہانی دونوں معتزلی ہیں مگردونوں کے ہاں فہم قرآن کا جو ذوق ہے وہ بہت بلندہے اس لیے ان دونوں سے وہ کافی استفادہ کرتے ہیں۔مگرمتاخرمفسرین پر وہ زیادہ ترنقدہی کرتے ہیں خاص کر تفسیرمدارک اورتفسیرخازن کے مصنفین پر ۔اردوترجموں کے بارے میں ان کی رايے اچھی نہ تھی مگرمولانااشرف علی تھانوی  کے ترجمہ و تفسیر کے بارے میں لکھتے ہیں: ”مولاناتھانوی کو نہ معلوم کیوں تفسیرروح المعانی بہت پسندآگئی تھی ۔جورطب ویابس اورفضولیات سے بھری ہوئی کتاب ہے ۔مجموعی لحاظ سے مولاناتھانوی کی تفسیربیان القرآن اردوتفسیروںمیں پسندیدہ ترہونے کے لائق ہے۔(۱۵)اسی طرح مولانا عبدالماجددریابادی کی خدمت قرآنی کو بھی سراہاہے (14) مولاناحمیدالدین فراہیؒ سے بہت سی باتوں میں اختلاف رکھتے تھے مثال کے طورمولانافراہی کی تفسیرسورہ فیل پر انہوں نے علمی نقدکیااورسلف کی تفسیر کی تائیدکی ہے ۔تاہم ان کے بارے میں بلندکلمات لکھے ہیں: مولاناحمیدالدین فراہی  صاحب فکروبصیرت عالم تھے ،….بہرحال قرآن کریم ان کے فکرونظرکاموضوع تھا،موصوف نے یہی مبارک روح سرائے میر(اعظم گڑھ ) کی مشہورعربی درسگاہ مدرسة الاصلاح میں پھونک دی تھی “۔(۱۷)

اردوتفسیروں میں علامہ میرٹھی نے سرسید،چودھری غلام احمدپرویز کے علاوہ متعددمواقع پر تفہیم القرآن پر بھی نقدکیاہے ۔حالانکہ وہ مولانامودودی کے عصری فہم و بصیرت وعظمت کے قائل تھے مگر علوم اسلامیہ اورخاص کرتفسیروحدیث کے میدان میں ان کے چنداں قائل نہ تھے ۔(۱۸)تفہیم اردومیں سب سے زیادہ شائع ہونے والی تفسیرہے کیونکہ اس کے پیچھے ایک منظم جماعت ہے۔اورجماعت کے اہل علم افسوس ہے کہ مولانامودودی کے نرے مقلدواقع ہوئے ہیں ۔مولانامودودی کی تفسیری غلطیاں عوام وخواص میں خوب پھیل رہی ہیں اورجماعت کے حلقہ میں مولاناپر ذراسے نقدکو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔اس لیے علامہ ازہرمیرٹھی اس تفسیرپرعلمی نقدکو بہت ضروری سمجھتے تھے۔جماعت سے شروع میں علامہ کا تعلق بھی رہاہے ،مگرجب انہوںنے اپنی تفسیرکی پہلی جلدشائع کی ،اس وقت ان کا قیام حیدرآبادمیں تھا،توجماعت کے لوگوں نے نہ صرف اس کا برامنایابلکہ ان کا راستہ روکنے کی کوشش بھی کی ۔مگرعلامہ کبھی اس قسم کی کسی چیزکو خاطرمیں نہیں لائے ۔

آیات کا باہمی ربط :مفسرگرامی نے سورہ وآیات کے باہمی ربط وتعلق پربھی جابجاروشنی ڈالی ہے ،مثال کے طورپر ”سورہ نوراورسورہ مومنین کے باہمی ربط کو ان الفاظ میں تحریرکرتے ہیں:

سورة المومنین کے شروع میں مذکورہے کہ عفت وپارسائی سے متصف ہونامومن کی شان ہے اوریہ وصف ان چھ اوصاف میں سے ہے جو فوزوفلاح کا سبب ہیں اورسورة النورمیں عفت وپارسائی کی تاکیدمذکورہے اوراس کی حفاظت کی سلبی اورایجابی تدبیریں ارشادہوئی ہیں ۔ اس لحاظ سے سورة النورکابیشترحصہ سورة المومنین کی آیت والذین ہم لفروجہم حافظون الاعلی ازواجہم اوماملکت ایمانہم فانہم غیرملومین (المومنین:6)کی شرح وتفسیرہے “۔( ۱۹)

ہرسورہ مرتب ومنظم نازل ہوئی :نظم قرآنی کے سلسلہ میں صاحب مفتاح القرآن کی رائے یہ ہے کہ ہرسورہ اسی ترتیب سے اتری ہے جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہے ۔ یہ توہواہے کہ کوئی سورہ پہلے نازل ہوئی ہو،اسے مصحف میں بعدمیں درج کیاگیاہو،مگرایسانہیں ہواکہ ایک ہی سورہ کی آیات میں تقدیم و تاخیر ہوگئی ہو۔نہ ہی ایساہواہے کہ کوئی آیت یاکوئی سورہ کئی بارنازل ہوئی ہو۔اس سلسلہ میں وہ لکھتے ہیں: (۲۰)حق وصحیح بات یہ کہ دیگر دوسری سورتوں کی طرح سورہ آل عمران کی آیات بھی اسی ترتیب کے ساتھ نازل ہوئی تھیں جس ترتیب سے وہ درج مصحف ہیں۔بے شک قرآن کریم کی سورتوں میں زمانی ترتیب نہیں ہے ۔چنانچہ چارابتدائی سورتیں ،سورة البقرہ،وآل عمران وسورة النساءوسورة المائدہ مدنیہ ہیں پھرسورة الانعام وسورة الاعراف دونوںمکیہ ہیں ۔لیکن یقین کرناچاہئے کہ ہرسورہ شریفہ کی آیات میں زمانی ترتیب ہے ۔ان میں عدم ترتیب کا خیال کرنایعنی یہ سمجھناکہ کسی سورہ میں بعدمیں نازل ہونے والی آیات پہلے اورپہلے نازل ہونے والی آیات بعدمیں درج مصحف ہیں بالکل غلط ہے ۔کسی سورة کی آیات میں ترتیب زمانی نہ ہونے کا غلط وبیہودہ خیال دراصل اہل رفض کا تراشیدہ ہے ۔خاص مقصدیعنی صحابہ کرام کو مطعون کرناان کے پیش نظرتھا ۔غیرمحتاط راویوںنے یاتقیہ اختیارکرکے رافضیوں نے ہی اہل سنت میں اس خیال کو قوت پہنچانے والی روایات پھیلائی ہیں“۔ اس رائے کا اظہارعلامہ نے اوربھی متعددجگہوں میں کیاہے ۔سورہ آل عمران کی شان نزول میں مولانامودوی نے چارتقریریں قراردی ہیں۔(تفہیم القرآن ج۱،دیباچہ تفسیرآل عمران )اس پر نقدکرتے ہوئے علامہ میرٹھیؒ لکھتے ہیں:

سوال یہ ہے کہ یہ سورت حضورﷺ نے مسلمانوںکو کب تعلیم فرمائی تھی اورکاتبان وحی سے کب لکھوائی تھی ؟ کیاتکمیل نزول کے بعدسنہ ۹ھ میں جب وہ تقریرنازل ہوچکی ہے جسے مودودی صاحب اس سورہ کی تقریر۲بتارہے ہیں اورجس کا زمانہ نزول ۹ھ قراردے رہے ہیں ؟ یاجیسے جیسے اس کی آیات نازل ہوتی رہیں آپ صحابہ  کو تلقین فرماتے اورکاتبان وحی سے لکھواتے رہے؟ یقیناپہلی صورت نہیں ہوئی نہ ہی کوئی شخص اس کا قائل ہے ،دوسری ہی صورت تھی یعنی جوآیات نازل ہوئی فوراان کی تلقین بھی فرمادی گئی اورکاتبان وحی سے وہ لکھوادی گئیں ۔پس مولانامودودی کے خیال مذکورکو مان لینے سے لازم آتاہے کہ اہل ایمان سنہ 4،۵،6،۷،اورسنہ۸ تک پورے پانچ سال تک اس سورہ کو اس طرح پڑھتے رہے ہوںکہ چوتھے رکوع کی دوآیتوں کے بعد”قل یاٰاھل الکتاب تعالوالی کلمة سواءبینناوبینکم ( آل عمران :64)پڑھتے ہوں جواس سورہ کا ساتواں رکوع ہے اوراسی طرح لکھنے والوں نے لکھاہوپھرجب سنہ ۹ میں یہ آیات جنہیں مودوی صاحب نے اس سورت کی دوسری تقریر بتایاہے اتری ہوںتب حضورﷺ نے مسلمانوں کو بتایاہوکہ یہ سورہ جوتمہیں محفوظ ہے یاتمہارے پاس بصورت مکتوب موجودہے تواس میں فلاں آیت اورفلاں آیت کے درمیان یہ آیات اوریادکرلواورلکھ لو،یہ لازم آنے والی بات یقیناغلط ہے ۔لامحالہ جس بات سے یہ غلط بات لازم آرہی ہے وہی غلط ہے۔

دوسراسوال مودودیؒ صاحب کو یہ حل کرنا چاہیے کہ ان کے قول کے مطابق اس سورہ کے چارحصے ہیں،پہلاحصہ اورتیسراحصہ توجنگ احد سے پہلے نازل ہواتھااورچوتھاحصہ جوختم سورہ تک ہے جنگ احدکے بعداتراتھا۔اس طرح سنہ4 تک اس کے تین حصے نازل ہوچکے تھے ،تومودودی صاحب ذرایہ بتائیں توسہی کہ ان تین حصوںکا سنہ ۹ یعنی وفدنجران کی آمدسے پہلے تک امتیازی نام کیاتھا،عرف صحابہ میں یہ آیات کس نام سے موسوم تھیں؟ظاہرہے کہ آل عمران تونام ہونہیں سکتاتھاکیوں کہ یہ نام تواُس آیت سے ماخوذ ہے جوچوتھے رکوع کی تیسری آیت ہے اوریہ آیت مودودی صاحب کی تحقیق میں سنہ ۹ میں وفدنجران کی آمدکے موقع پر اتری ہے؟۔“(۲۱)

حروف مقطعات : حروف مقطعات کے بارے میں مفسرین کا عام رجحان یہ ہے کہ ان کے معانی اللہ تعالی  ہی کومعلوم ہیں۔اوران کو معلوم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔مگربعض مفسرین نے اس کے برخلاف ان کے معانی متعین کرنے کی کوشش بھی فرمائی ہے ۔اردومیں مولاناثناءاللہ امرتسری نے اس کی کوشش کی ہے( ۲۲ )علامہ میرٹھی بھی اسی گروہ علماءسے تعلق رکھتے ہیں،انہوںنے حروف مقطعات میں ہرایک کے معنی ومفہوم کو متعین کیاہے اوران کو سورہ بقرہ کے شروع میں جمع کردیاہے ۔اوریہ بحث ان کی تفسیرمیں صفحہ ۲۹سے 47 تک چلی گئی ہے ۔پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔اس بحث کے آغازکے چندجملے ہم يہاں نقل کرتے ہیں:

”الٰم۔اِس سورہ شریفہ کا عنوان ہے ۔اوریہ ہی اس کے بعدکی سورہ یعنی سورہ آل عمران کا پھرسورہ العنکبوت وسورة الروم وسورة لقمان وسورة السجدہ کا بھی عنوان ہے ۔اس طرح اوربھی متعددسورتوں کے عناوین ایسے ہی رکھے گئے ہیں۔قرآن کریم میں اِ س انداز کی سورتین انتیس ہیں،ان میں سے دو-سورة البقرہ وسورة آ ل عمران -مدنیہ ہیں اوربقیہ سب مکیہ ہیں ۔اِن عناوین کو اصطلاح میں حروف مقطعات کہتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا تلفظ حروف ہجاءکے طورپر پوراپورااورالگ الگ کیاجاتاہے ۔اورحضورﷺ سے ان کی قرات اسی طرح ثابت ومنقول ہے ۔ مثلا’الم ‘کو الف لام میم پڑھاجاتاہے ۔ان حروف مقطعات میں فی الواقع ان مضامین ومطالب کی طرف اشارات فرمائے گئے ہیں جن کا ان سورتوں میں ذکرہے ۔مناسب معلوم ہوتاہے کہ ہمیں آغاز سورہ  بقرہ میں ان تمام حروف مقطعات کی کچھ توضیح ہدیہ ناظرین کردی جائے ۔ اولامیں یک حرفی سورتوں کا ذکرکروں گاپھردوحرفی پھرسہ حرفی پھرچارحرفی اورآخرمیں پنچ حرفی سورتوں کا ۔

یک حرفی سورتیں تین ہیں:

(۱)صٰ:اس سورہ شریفہ کے آغاز میں ہی ذی اثرکافروں کا یہ قول نقل کیاگیاہے ۔امشواواصبرواعلی آلہتکم(ص:6 )(اپنے قدیم مسلک ومذہب پر چلتے رہواوراپنے معبودوں اوردیوتاوں پر جمے رہو) یعنی حضورﷺ کی دعوت حق میں جدوجہدکو دیکھ کراُن لوگوں نے باہم یہ طے کیاتھا اور اپنے عوام کو یہ پیغا م دیاتھاکہ اس دعوت توحیدکو بالکل ناکام بنادو،صبروثبات اوراستقلال کے ساتھ اپنے دھرم پر قائم رہو۔اس کے بعد ان کی اورچندبے ہودہ وگستاخانہ باتیں نقل کرکے اورانہیں زجروتوبیخ فرماکراللہ تعالی  نے حضورﷺ سے فرمایاہے : اصبرعلی مایقولون واذکر عبدناداود ذاالاید(ص:17)یعنی آپ ان کی باتوں میں پر صبرفرمائیں اوراپنے کام میں لگے رہیں اورتسلی کے ليے گزشتہ انبیاءکرام علیہم السلام کی سیرت ِصبروثبات پیش نظررکھیں ۔اس کے بعدان حضرات کے صبروثبا ت اوراس کے مختلف مظاہرکو پیش کیاہے ۔پھرچوتھے رکوع کے آخرمیں حق پر صبرکرنے والوں اورباطل سے چمٹے رہنے والوں کے الگ الگ اورمتضاداخروی انجام کا ذکرکیاہے۔پھرپانچویں رکوع میں باطل پر صبرکرنے والوں کے سب سے بڑے لیڈراورپیشوایعنی ابلیس اوراس کے انجام بدکا ذکرہواہے ۔پس اس سورہ شریفہ کا مرکزی و بنیادی مضمون صبرہے اوراس میں نہایت بلیغ ودلنشین انداز سے صبرعلی الحق اختیارکرنے اورصبرعلی الباطل کوچھوڑدینے کی ترغیب وتاکید فرمائی گئی ہے۔اورحرف صادکو اس کا عنوان وعلم قراردے کرا سکے اس موضوع کی طرف اشارہ کیاگیاہے۔

ق:ٰ اس سورہ شریفہ کا موضوع قیامت کے دن کا بیان ہے ،اِس یوم عظیم کے خاص خاص احوال واہوال ذکرفرمائے گئے ہیں۔اسی جہت سے حرف قاف کو اس کا عنوان وعلم بنایاگیاہے ۔

نٰ: یہ سورة القلم کا عنوان ہے ،نون عربی میں بڑی مچھلی کو کہتے ہیں،اس سورہ شریفہ میں مچھلی والے نبی یعنی حضرت ذوالنون یونس بن متیٰ علیہ السلام کا ذکرہے ۔نیز نون نعمة ونعیم کا ابتدائی حرف ہے یہ سورہ دورکوعوںپر مشتمل ہے ،پہلے رکوع کے آغازمیں خلق عظیم کی توفیق اوررسالت کی نعمت کا ذکرہے جوحضورﷺ کوعطافرمائی گئی ہے اوردوسرے رکوع کے شروع میں یہ ارشادہواہے کہ اہل تقوی کے ليے اللہ تعالی  کے ےہاں جنات النعیم ہیں ،اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام وعنوان حرف نون کو قراردیاگیاہے ۔“الخ(۲۳)

حروف مقطعات کی بحث کے اخیرمیں انہوں نے لکھاہے : ”واضح رہے کہ حروف مقطعات کے متعلق یہ جوکچھ میں نے لکھاہے اس میں سے اکثرحصہ کے متعلق بحمداللہ مجھے شرح صدرحاصل ہوچکاہے ….پھریہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ حروف مقطعات کوسورتوں کے عنوان وعلم کے طورپر استعمال کرناقرآن کریم کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اوراس کے معجزانہ تفردات میں سے ایک تفردہے ۔کلام عرب میں حروف مقطعات کواس طرح استعمال کرنے کی کوئی نظیرثابت نہیں ….واقعہ یہ ہے کہ یہ اسلو ب نہ تونزول قرآن کے پہلے معروف تھانہ نزول قرآن کے وقت رائج تھا اس ليے اس کا متروک ہوجانابے معنی بات ہے ۔اوریہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے نزول کے وقت صحیح وفصیح عربی میں ادائے مطالب کے جواسالیب رائج ومعروف تھے وہ تمام کے تما م بلااستثناءقرآن کریم کی بدولت صحیح وفصیح عربی زبان میں اب بھی معروف ورائج ہیں اورجب تک روئے زمین پر قرآن باقی ہے معروف ورائج رہیں گے “۔(24)

لغوی دقائق :مفسرعربی زبان وادب ،لغت واشتقاق ،نحووصرف اوربلاغت میں بھی یدطولیٰ رکھتے ہیں ،جس کی وجہ سے وہ لغوی دقائق اورنکتہ سنجیوں تک بآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ان کاسب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ان علوم پر بھی مجتہدانہ نظررکھتے ہیں۔لہٰذاآیات کی تفسیرکے بعد تنبیہ کے عنوان سے جہاں بھی کوئی فنی ،ادبی ،لغوی یاحدیثی تحقیق پیش کرتے ہیں ان میں وہ اکثرجگہوں میں نہایت اطمینان بخش رائے دیتے ہیں ۔ عقلی ووجدانی طورپر قاری ان کی بات سے مطمئن اورسابق مفسرین کی رائے سے غیرمطمئن ہوجاتاہے۔مفسرگرامی قرآن پر مسلسل غور و فکر اورتدبرکرتے تھے ،لہٰذااس تدبراورغورفکرسے ان پر نت نئے معانی اورتحقیقات کا انکشاف ہوتارہتاتھا۔اورگویاوہ کیفیت تھی کہ

    ترے ضمیرپر نہ ہوجب تک نزول کتاب            گرہ کشاہے نہ رازی نہ صاحب کشاف

مثال کے طورپر آیت کریمة حتی اذاجاءامرناوفارالتنور قلنااحمل فیہامن کل زوجین اثنین واہلک الا من سبق علیہ القول ومن آمن (ہود:40 ) کاترجمہ یوں کیاہے : يہانتک کہ جب آجائے گاہماراحکم اورابل پڑے گاتنورتوہم فرمائیں گے کہ سوارکرلے اس میں ہرایک نوع سے نرومادہ کویعنی دوفردکواور اپنے گھروالوں کو اُس کے سِواجس کی تباہی کا حکم صادرہوچکاہے ۔اوراس گروہ کوجوایمان لے آیاہے اوراس قوم میں تھوڑے ہی لوگ ایمان لاکراس کے ساتھ ہوئے تھے ۔

آگے تنبیہات کے عنوان سے لکھتے ہیں: اس ترجمہ وتفسیرسے ناظرین سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ آیت واصنع الفلک باعینناووحیناولاتخاطبنی فی الذین ظلموا(ھود:37 )سے مرتبط ہے ۔اس آیت کا ترجمہ کرنے میں دیگرمفسرین ومترجمین سے چوک ہوگئی ہے ،انہوں نے حتی اذاجاءامرنا وفار التنور(ہود:40 ) کاترجمہ یہ کیاہے :يہاں تک کہ جب ہماراحکم آپہنچااورتنورنے جوش ماراتوہم نے کہا“حالانکہ لفظ اذااس ترجمہ کی صحت سے مانع ہے ۔ اگراذاکی بجائے لما یااذ ہوتاتویہ ترجمہ درست ہوتاکیونکہ اذاکلمہ استقبال ہے ماضی کوبھی مضارع کے معنی میں کردیتاہے ،ان مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ کرتے وقت سورة المومین کی اِس آیت کوبھی پیش نظررکھاہوتاتوغلطی سے بچ جاتے “فاوحیناالیہ ان اصنع الفلک باعیننا ووحینافاذاجاءامرناوفارالتنورفاسلک فیہامن کل زوجین اثنین واہلک الامن سبق علیہ القول منہم ولاتخاطبنی فی الذین ظلمواانہم مغرقون. المومون:27) (۲۵)

لوح محفوظ کی تحقیق : قرآن میں متعددجگہ کتاب مبین یاروزنامچہ  خداوندی کا تذکرہ آیاہے،جوتمام حوادث وواقعات عالم کومحیط ہے اورجس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔مفسرگرامی نے اس کتاب مبین کی متعددآیات کے تتبع سے تین قسمیں کی ہیں ۔(الف )منصوبہ  کائنات جو تخلیق کائنات سے بہت پہلے ہی لکھاجاچکاہے۔اس کے بارے میں قرآن کے علاوہ صحیح مسلم کی ایک حدیث بھی ناطق ہے۔(ب) عالم میں رونما ہونے والے حوادث وواقعات کا تفصیلی رجسٹرجیساکہ متعددآیات کریمہ بتاتی ہیں۔(ج) ہر شخص کا نامہ  اعمال ،متعددآیات میں مذکورہے کہ قیامت کے دن نیک بندوں کو یہی نامہ  اعمال داہنے ہاتھ میں ملے گااورکفارفجارکو بائیں ہاتھ میں۔اس کے بعدلکھتے ہیں::

پس قرآن مجیدسے اندراجات کی یہ تینوں قسم کی کتابیں ثابت ہیں ،لیکن تعجب ہے کہ جمہورمفسرین کوان میں تمییز کی توفیق نہیں ملی ۔انہوں نے قسم اول وثانی پر دلالت کرنے والی آیات میں ہر جگہ کتاب کو ”لوح محفوظ “سے تعبیرکیاہے ۔اورلوح محفوظ کے متعلق یہ تصوردیاہے کہ وہ ایک کتاب عظیم ہے جس میں دنیابھرکی ہرچیز بے کم وکاست عالم کی آفرینش سے پہلے ہی درج کردی گئی ہے ۔حتی کہ تمام بندوں کے اچھے برے اعمال وافعال اورانہیں پیش آنے والے تمام احوال سب اس میں ثبت ہیں۔جتنے صحیفے انبیاءکرام پر نازل ہوئے قرآن کریم سمیت سب اس میں پہلے سے ہی لکھ ديے گئے تھے۔یہ لوح زمردکی ہے ،اس کا طول 500سال کی مسافت کاہے اورعرض 100سال کی مسافت کا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس مزعومہ لوح محفوظ کا ذکرنہ توقرآن کریم میں کہیں ہے نہ کسی حدیث صحیح میں“….۔قرآن میں سورة البروج میں جولوح محفوظ آیاہے اس کے بارے میں ان کی تحقیق یہ ہے کہ ”لیکن اس آیت میں لوح محفوظ کو معنی مذکورپر حمل کرنانہ لفظاصحیح ہے نہ معنی “۔اس کے بعداپنے دلائل ديے ہیں اورلوح محفوظ کے معنی یہ بتائے ہیں کہ وہ الواح اورتختیاں وغیرہ جن پر صحابہ کرام  قرآن کریم کی نازل شدہ آیات اہتمام کے ساتھ لکھ لیاکرتے تھے۔(26)

تفسیرالقرآن بالقرآن :ڈاکٹرسیدشاہدعلی کی تحقیق کے مطابق: ”آیات کی تفسیرکے سلسلہ میں آپ تفسیرالقرآن بالقرآن کے طرز کی مکمل پیروی کرتے ہیں ۔آپ کی زیادہ ترکوشش یہ ہوتی ہے کہ آپ ایک آیت کی دوسری آیات کی مددسے تفسیرکریں،مزیدیہ کہ دوسری آیات کے بیان پر ہی اکتفانہیں کرتے بلکہ ان کی بھی تشریح وتوضیح کردیتے ہیں۔جس سے موضوع کاپورااحاطہ ہوجاتاہے اورسلف صالحین کے مسلک کی مکمل پیروی بھی ہوتی ہے۔ومن یردثواب الدنیانوتہ منہاومن یرد ثواب الآخرة نوتہ منہاوسنجزی الشاکرین (اورجودنیاکے فائدے کو مقصودبنائے توہم اسے دنیاسے دے دیتے ہیں اورجوآخرت کے فائدہ کو مقصودبنائے توہم آخرت سے عطافرماتے ہیں اورشکرکرنے والوں کو ہم جزاعطافرمائیں گے ،آل عمران : 145 )کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: ”واضح رہے کہ مریدان دنیاکے متعلق سورہ بقرہ میں ہے ومالہ فی الآخرة من خلاق ( 200 )اورسورہ شوری میں ہے ومالہ فی الآخرة من نصیب( 20 ) اورسورہ بنی اسرائیل میں ہے من کان یرید االعاجلة عجلنالہ فیہامانشاءلمن نریدثم جعلنا لہ جہنم ( 18)یعنی دنیاکا مریدآخرت میں بالکل بے بہرہ اوردوزخ نصیب ہوگا(۲۷)

عصرحاضرکے مشہورفکری تصورات پر نقد: یہ بھی اس تفسیرکی اہم علمی وفکری خصوصیت ہے ۔اس سلسلہ میں ہم اُس معرکة الآراءبحث کو پیش کرناچاہتے ہیں جس کو صاحب تفسیرنے مختصرااٹھایاتھا اوراب اس پر بحث جاری ہوگئی ہے ،البتہ بحث کرنے والوں نے ان کاحوالہ نہیں دیاہے ۔وہ ہے یہ بحث کہ کیا انسان اللہ کا خلیفہ ہے ۔

استخلاف فی الارض کامطلب ہے کہ ايک قوم کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ لے آنااورايک فرد کے بعد دوسرے فرد کو اس کی جگہ لے آنا ۔لفظ خليفہ،استخلاف اورخلائف وغيرہ اوراس کے دوسرے مشتقات قرآن ميں تقريبا۱۵جگہ استعمال ہوئے هيں ۔اورہرجگہ ان سے يهي معنی مراد ليے گئے هيں کہ اللہ تعالی نے ايک فردياايک قوم کی جگہ دوسرے فرد ياقوم کو اس کی جگہ عطاکردی ۔اکثرمفسرےن کرام نے ان آےات کے مفہوم ميں غلطی کی ہے ۔اوربے دليل انسان کو خداکا خليفہ قراردے ڈالاہے۔موجودہ زمانہ مےں اس غلط فکر کوعام کرنے ميں سب سے زيادہ حصہ مولانا مودودی کارہاہے۔جنہوں نے اس کو ايک پورافلسفہ ہی بناڈالاہے۔آیت کریمہ انی جاعل فی الارض خلیفة (البقرہ :30 )جس کو خلافت الٰہیہ کے علمبرداروں نے اپنے فلسفہ کی اساس بنایاہے۔کی تشریح تفسیرمفتاح القرآن کی نہایت معرکة الآرا بحث ہے ۔جو صفحہ ۱۱۵ سے ۱۲۷تک چلی گئی ہے ۔اِ س آیت کی تفسیرمیں جومتعدداقوال ہیں مصنف علام پہلے ان کا محاکمہ کرتے ہیں پھرنظریہ خلافت والی رائے کونقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:متعدداہل علم حضرات نے جوخلیفہ کو اس آیت میں خلیفة اللہ یعنی نائب خداکے معنی میں سمجھتے ہیں ، وہ يہاں خلیفہ سے مطلق انسان انسان یعنی نوع انسانی مرادلیتے ہیں اورہمارے علم میں اس نقظہ  نظرکی مولاناابوالاعلی مودودی نے سب سے بڑھ چڑھ کراورکافی واضح ومفصل ترجمانی فرمائی ہے :آگے مولانامودودی کی عبارت نقل کرکے اس پر نقدکیاہے ۔

 اور اس آیت کی تفسیرخودمصنف علام نے یوں کی ہے :

انی جاعل فی الارض خلیفة (ترجمہ : میں انسان کو جانشینی کے ساتھ آبادرہنے والی مخلوق کی حیثیت سے رکھنے والاہوں۔مطلب یہ ہے کہ میں نے طے کرلیاہے نوع انسان نسل درنسل زمین میں آبادرہے گی ےہاںجاعل کے معنی ہیںرکھنے والاجعل کارکھنے کے معنی میں استعمال معروف ہے ….پس انسان ہی وہ مخلوق ہے جس میں خلافت وجانشینی کاطریقہ فطری طورپر پایاجاتاہے ،قرآن کریم میں اس معنی کے لحاظ سے انسان کو خلیفہ اورانسانوںکوخلائف اورخلفاءکہاگیاہے لیکن شروع سے آخرتک قرآن کریم میںکسی جگہ بھی انسان کواللہ نہیں کہاگیاہے حتی کہ کسی نبی کے لےے بھی یہ لفظ نہیں آیا۔داود علیہ السلام کے متعلق بھی یہ ارشادہواہے کہ ےاداوداناجعلناک خلیفة فی الارض (ص:26)(اے داود ہم نے تجھے اس سرزمین میں خلیفہ بنایاہے ،یعنی سلطنت میں طالوت کا اورنبوت میں حضرت شمویل علیہ السلام کا….اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ اے داووہم نے تجھے اپناخلیفہ بنایاہے ۔جن مترجمین نے یہ ترجمہ کیاہے غلط کیاہے اس ”اپنا“کالفظ بالکل غلط اضافہ ہے ۔اسی طرح ےہاں انی جاعل فی الارض خلیفة کا یہ ترجمہ غلط ہے کہ ”میں زمین میں اپنانائب بنانے والاہوں“ہاں اگرخلیفتی یاخلیفة لی ہوتاتویہ ترجمہ صحیح قراردیاجاتا۔ اس بات کی تائیدمیں انہوںنے آگے حضرت ابوبکرکے اس قول کو بھی دلیل میں نقل کیاہے جس میں انہوںنے اس شخص کی تردیدکی تھی جس نے ان کویاٰخلیفة اللہ کہ کرپکاراتھا توآپ  نے فرمایامیں اللہ کا نہیں اللہ کے رسول کا خلیفہ ہوں(۲۸)

جہادوشوری :صرف خلافت ہی نہیں بلکہ عصرحاضرکے دوسرے مسائل پر بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیاہے ۔مثال کے طورپر جہاداورشوری کا مسئلہ ۔جہادکے بارے میں ان کا موقف ٹھیک وہی ہے جوہمارے فقہاءکے ہاں پایاجاتاہے ،انہوں نے اس مسئلہ میں معاصرعلمااورمصنفین کا موقف قبول نہیں کیا۔اپنے خیالات کا اظہارمختلف مواقع پرکیاہے مثال کے طورپر آیت لاااکراہ فی الدین(بقرة : 256) کی تفسیرمیں ۔جہاں تک شوری کا معاملہ ہے تووہ اس کے قائل ہیں کہ شوری ملزمہ نہیں ہوتی ،یعنی امیرالمومنین پر شوری کا اتباع واجب نہیں ،البتہ ان کے لفظوں میں ”حسن سیاست کا تقاضایہی ہے کہ امیرتاامکان کثرت رائے کے خلاف عمل نہ کرے“۔اس موقع پرانہوںنے شوری سے مروجہ جمہوریت وڈیموکریسی کے حق میں دلیل لینے والوں پر نقدبھی کیاہے ۔(۲۹)

قرات سبعہ :قرات سبعہ کا مسئلہ بھی آج بحث وتمحیص کا میدان بناہواہے ،مثال کے طورپر قرائتوں کے اختلاف کی روايتيں،خاص کرسبعة احرف کی بحث اورتدوين قرآن کے بارے ميں يه عام موقف کہ قرآن عہد ابوبکر  ميں جمع و مرتب ہوا،اوريہ کہ رسول اکرم ﷺامی بمعنی ان پڑھ تھے ۔ اسی طرح يہ قول کہ قرآن مجيد کی ترتيب ميں اجتہاد کو دخل ہے نہ کہ نص کو ۔مصحف عثمانی  سے عبداللہ بن مسعودؓ کے اختلاف کی روايتيں وغيرہ۔ سب سے زيادہ کنفيوژن سبعة احرف کی تاويل پيداکرتی ہے۔علماءکی ايک جماعت کہتی ہے کہ ہم معنی الفاظ اقبل،ھلم اورتعال ميں سے کسی ايک کو اختيارکياجاسکتاہے،عجل کی جگہ امھل کا استعمال بھی قرآن ميں وہی معنی دے گا۔بقول طبری حضوراکرم ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمايا:”کہ قرآن ميں ہر طرح کے الفاظ کااستعمال درست ہے۔بشرط يہ کہ تورحمت کی جگہ عذاب اورعذاب کی جگہ رحمت کا لفظ نہ رکھ دے “۔بات صرف اتنی ہی نہيں بلکہ کنز العمال اورالاتقان فی علوم القرآن ميں اس قسم کی روايتوں اوراقوال کی کمی نہيں کہ اگر تلاوت ميں اعراب کی تبديلی کی وجہ سے معنی ميں تبديلی ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہيں سمجھاجائے گا۔مثلافتَلّقی آدمُ من ربہ کلماتکو فتُلقی آدمُ من ربہ کلمات،والذين ھم لاماناتھم وعھدہم راعون (المومنون: ۸) کو لامانتھم بصيغہ واحد پڑھنابھی جائز سمجھاگيا۔الفاظ ميں تقديم وتاخير اورحروف ميں کمی بيشی بھی رواکرلی گئی۔ علامہ میرٹھیؒ اس قسم کی کسی قرات کے قائل نہیں ہیں ۔وہ بہت سختی سے اس بات کی تردیدکرتے ہیں کہ موجودہ مدون مصحف کے طریقہ سے ہٹ کرقرآن کے کسی لفظ یاکلمہ کی قرات کی جائے ۔چنانچہ الذی یطیقونہ فدیة طعام مسکین (البقرة : 182 ) کی تفیسرمیں عطاءنے حضرت ابن عباس کی قرات اورتفسیریہ نقل کی ہے کہ وہ اس کو یطَّوَقونہ پڑھاکرتے ۔ کونقل کرکے لکھتے ہیں(۳۰):

لیکن یہ تفسیربہ دووجہ واجب الرد ہے (الف) اگرعطاءکا بیان صحیح ہے اورفی الواقع حضرت ابن عباس اس آیت میں یطوقونہ پڑھاکرتے تھے تویہ ٹھیک نہ تھا ،کیونکہ قرآن کریم کی عبارت وکلمات میں قیاس آرائی کوکوئی دخل نہیں ہے ۔قرآن کریم بطریق تواترحضورﷺ سے منقول ہے اوربلاشبہ آپ نے یطیقونہ ہی پڑھاپڑھایاہے ،یہ ہی آپ ﷺ نے صحابہ  کو تلقین فرمایاتھا،اورنقل متواترکے خلاف کسی کو بھی قرآن کریم کاکوئی لفظ پڑھناجائزنہیںہے۔مگرمیں سمجھتاہوں کہ عطاءکوحضرت ابن عباس کے متعلق یہ بات نقل کرنے میں وہم ہوگیاہے ۔حضرت ابن عباسؓ نے کلمہ قرآن کی حیثیت سے نہیں بلکہ تفسیرِمطلب واظہارِمعنی کی غرض سے یطیقونہ کویطوقونہ سے تعبیرکردیاہوگا“۔

مزیدیہ کہ آیت کریمہ وعلی الذین یطیقونہ فدیة طعام مسکین کی ان کی تفسیربھی معرکة الآراءہے اورتمام متقدمین ومتاخرین سے الگ ہٹ کرہے اورنہایت مدلل ومستحکم رائے پرمبنی ہے ۔جویوں ہے ۔ترجمہ : اوراُن بیماروں اورمسافروں پر فدیہ یعنی ایک مسکین کا کھانالازم ہے جواس کی استطاعت رکھتے ہوں۔تشریح:مطلب یہ ہے کہ مریض ومسافراگراتنی مالی استطاعت رکھتاہوکہ ایک روزہ کے عوض ایک مسکین کو کھاناکھلادے تواس پر قضابھی لازم ہے اورفدیہ بھی اوراگراتنی استعاعت نہ رکھتاہوتواس پر صرف قضا واجب ہے فدیہ نہیں ۔(۳۱)

اس کے بعدعلامہ نے آیت کریمہ کی تفسیرسلف وخلف سے منقول اقوال اوررایوںکا محکم دلائل کے ساتھ محاکمہ کیاہے ۔جو مطالعہ کے قابل ہے ۔(۳۲)

لغوی تحقیقا ت :عربی زبان کے قواعدولسانی اصول یوں توسماعی ہیں مگربعض جگہوں پر علامہ نے ان میں بھی اجتہادسے کام لیاہے اورمتقدمین سے اختلاف کیاہے مثال کے طورپر سورہ ہود کی آیت یوم یات لاتکلم نفس الا باذنہ فمنہم شقی وسعید ( 105 )جس وقت روز آخرت آدھمکے گااس حال میں کہ اللہ کی اجازت کے بغیرکوئی شخص بات نہ کرے گا۔توکچھ لوگ توبدبخت ہوں گے یعنی کفاراورکچھ خوش نصیب ہوں گے یعنی مومنین۔

اس پرتنبیہات کے تحت لکھتے ہیں: (۱) یوم یات حذف یاکے ساتھ ہی ثابت ہے ۔بعض قراءنے یہ خیال کرکے اسے یاتی پڑھاہے کہ ےہاں کوئی جزم کرنے والاحرف یااسم نہیں ہے اوردیگرآیات قرآنیہ میں یاءقطعاثابت ہے ۔چنانچہ سورہ ہود کے پہلے رکوع میں ہے الایوم یاتیہم لیس مصروفاعنہم( ہود:۸ ) اورسورة النحل میں ہے یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسہا(النحل:۱۱۱ )اوربھی جس فعل مضارع پر لفظ یوم قرآن میں آیاہے تووہ فعل مرفوع ہی ہے جیسے یوم یجمع اللہ الرسل (المائدہ :۱۰۹ )،یوم یخرجون من الاجداث(القمر:۷ ) ،یوم ینفع الصادقین صدقہم(۱۱۹ ) اس لےے یہاں بھی مرفوع ہوناچاہيے۔مگراس کے متعلق ابن جریرطبری نے لکھاہے کہ : والصواب من القرائة فی ذلک عندی یومَ یاتٍ بحذف الیاءفی الوصل والوقف اتباع الخط المصحف“یعنی چونکہ مصحف عثمانی میں یاتِ لکھاہواہے نہ کہ یاتی اس ليے اسے حذفِ یاءکے ساتھ ہی پڑھنا ہی درست ہے۔ا ب سوال یہ ہے کہ یاءکس قانون کے تحت حذف ہوئی ہے؟ اس کا جواب ابن جریروغیرہ نے یہ دیاہے کہ یہ قبیلہ¿ ہذیل کے محاورہ کے مطابق ہے ۔ یہ قبیلہ حالتِ جزم کی طرح حالتِ رفع میں بھی مضارع منقوص کے آخر سے حرف علت گرادیتاہے ۔چنانچہ وہ لاادری کی جگہ لاادرِ بولتے ہیں۔ابن جریرلکھتے ہیں”انہا لغة معروفة لہذیل تقول مااَدرِماتقول ومنہ قول الشاعر

   کفاک کف ماتلبق درہما             جوداواخری تعطِ بالسیف الدما

لیکن میرادل اس توجیہ کی طر ف مائل نہیں ہوتا۔اس ليے کہ مضارع منقوص سے بحالت رفع بھی حذف حرف علت فصیح ہوتاتودیگرمواضع میں بھی یوم یاتِ اوریوم تاتِ فرمایاجاتا۔پھرقرآن کریم جیساکہ حدیث صحیح میں ہے، لغت قریش پر نازل ہواہے اورمعلوم ہے کہ حضرت عثمان  نے نقل مصاحف کے وقت اس حقیقت کا بڑالحاظ واہتمام فرمایاتھا۔میرے نزدیک اس کی صحیح توجیہ یہ ہے کہ متیٰ کی طرح یوم بھی اسم ظر ف ہے اورجیسے متی شرط کے لےے بھی مستعمل ہوتاہے نحومتی تذہب اذہب اسی طرح یوم بھی شرط کے لےے استعمال کرلیاجاتاہے ،جیسے یوم تسافراُسافر(جس دن توسفرکرے گامیں بھی سفرکروںگا) اگرمتیٰ محض ظرف کے معنی میں آئے شرط کے معنی میں نہ ہوتواس کے بعدآنے والا فعل مضارع مرفوع ہوتاہے جیسے تم کسی سے پوچھومتی  تذہب (توکب جائے گا؟)یہ ہی حکم یوم کاہے کہ وہ شرط کے معنی سے مجرد ہوتواس کے بعدآنے والافعل مضارع مجزوم ہوتاہے ۔اسی طرح جب یوم شرط کے معنی دے تووہ بھی جازم ہوگاجیسے یوم تذہب اذہب پس یومَ یاتِ اس آیت میں اس لےے ہے کہ لفظ یوم یہاںمعنیً شرط کے معنی کافائدہ دے رہاہے ۔یوم َیاتِ شرط ہے اورفمنہم شقی وسعید اس کی جزاہے اوربیچ میں لاتکلم نفس الاباذنہ حال ہے ۔(۳۳ )

 اورمثلاوان کادولیفتنونک عن الذی اوحیناالیک (بنی اسرائیل : 77)میںفعل کادکی تحقیق ۔جس میں دوسرے مفسرین اس کو فعل مقاربہ میں سے سمجھ کرترجمہ وتفسیرکرتے ہیں ،لیکن علامہ نے اس کو باب سمع سے کادیکادسے قراردیکرترجمہ وتفسیرفرمائی ہے ۔(34)

عبادت واطاعت میں جوہری فرق : بانی جماعت اسلامی مولانامودودیؒ نے اپنے نظریہ کی تشریح کے لييے قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں لکھی اوراس میں عبادت و اطاعت دونوں اصطلاحوں کو لغات کی مددسے قریب قریب ایک ہی بنادیا۔سیدقطب شہیدؒ بھی اس سلسلہ میں ان ہی کے خوشہ چیں ہیں ،گرچہ مشہور اخوانی رہنماحسن الہضیبیؒ نے اس سے اختلاف کیاہے ،جماعت اسلامی کے اہل علم عام طورپر مولانامودودی کی اتباع ہی کرتے ہیں۔مولاناکی اس رائے سے متعدداہم علم (مثال کے طورپرمولاناعلی میاں ندوی ،مولانامنظوراحمدنعمانیؒ اورمولاناوحیدالدین خاں)نے اختلاف کیاہے ۔جن میں سے علامہ میرٹھی بھی ہیں ۔۔چنانچہ انہوںنے مفتاح القرآن میں تفصیل سے اس پر کلام کیاہے کہ عبادت اورطاعت میں جوہری و اساسی فرق ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے :

”عبادت پرستش یاپوجااس اختیاری عمل کوکہتے ہیں جوکسی فوق البشری طاقت کی حامل ہستی کو خوش کرنے کے لےے انجام دیاجائے ،عبادت کا اصل مفہوم تویہی ہے البتہ کبھی کبھی مجازالفظ عبادت کو اطاعت کے معنی میں بھی استعمال کرلیاجاتاہے،مثلاشیرکا اطلاق انسان پرمجازا کردیا جاتاہے ۔اطاعت کسی صاحب اقتداروبااختیارہستی کے حکم کوماننااوراس کی رضاچاہناہے ۔یہ دونوں معنی آپس میں نہ متضادہیں نہ متلازم ۔اس لےے ان دونوں کااجتماع بھی ممکن ہے اورافتراق بھی ۔یہ ممکن ہے کہ کوئی عمل عبادت وطاعت دونوں ہو،اوریہ بھی کہ کوئی عمل اطاعت ہو،عبادت نہ ہو۔مثال کے طورپر فرض نماز عبادت بھی ہے اطاعت بھی مگرنفل نماز عبادت ہے اطاعت نہیں،کہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا ۔ اسی طرح چورکاہاتھ کاٹنایازانی کوسزادینااطاعت ہے مگروہ عبادتی عمل نہیں ۔اسی طرح مجازایہ کہاجاتاہے کہ مومن کا ہرکام عبادت ہے ۔حالانکہ عبادت اوراطاعت میں جوہری فرق ہے ۔وہ یوںکہ اسلام میں عبادت صرف خداکا حق ہے ،اللہ تعالی کے سواکسی کی عبادت کی قطعاکوئی گنجائش نہیں،اس دین کی بنیادہی اِس پرہے کہ اللہ تعالی اورصرف اللہ تعالی کو ہی معبودسمجھاجائے ۔اس میں اللہ کے علاوہ کسی اورکی خواہ وہ مقرب فرشتہ ہویانبی ورسول عبادت کرنااکبرالکبائراورگناہ عظیم ہے ۔جبکہ اطاعت کے معاملہ میں نسبةًوسعت ہے کہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ ہی رسول کی اطاعت بھی فرض ہوتی ہے اوراولوالامرکی مشروط اطاعت کا بھی حکم ہے ۔(۳۵)

وماانزل علی الملکین ببابل ہاروت وماروت (البقرہ :102 )میں ’ما‘کو مصدریہ مان کرعام طورپر یہ ترجمہ وتفسیرکرتے ہیں کہ ہاروت و ماروت نامی دوفرشتے تھے جن کو اللہ نے جادوکا علم دے کرآزمائش کے لےے زمین پر بھیجاتھا۔مگراشکال یہ ہے کہ اس سے لازم آتاہے کہ سحر بھی منزل من اللہ اورحق ہو،اوراللہ تعالی نے خودہی لوگوں کو سحرکی تعلیم دینے کا انتظام فرمایاہوحالانکہ سحرکو اللہ تعالی نے کفربتایاہے ۔اس نا قابل حل اشکال کے باعث علامہ میرٹھی نے’ما‘کونافیہ مان کریہ ترجمہ وتشریح کی ہے: اورنہ ہی بابل میں ہاروت وماروت نامی دو فرشتوں پر جادواتاراگیاہے ،(پس یہ بھی ان شیاطین کی دروغ بافی ہے)اصل بات یہ ہے کہ سرزمین بابل میں جوکہ صدیوں سے ویران وغیر آباد پڑی تھی دوجادوگروں نے اپنی کُٹی بنارکھی تھی ۔….اغلب یہ کہ یہ دونوں عبرانی نسل کے تھے کیونکہ اس انداز کے نام اسی نسل میں ملتے ہیں …. ہاروت وماروت نامی ان جادوگروں نے اپنے ہم پیشہ لوگوں کی طرح ویرانہ نشینی اختیارکرکے اپنی شخصیت کو پراسرار بنا رکھا تھا ۔ ….وہ کسی خام طلب شخص کو منہ نہ لگاتے بلکہ اچھی طرح ٹھونک بجاکردیکھ لیتے جسے طلب کا سچاپاتے اسے ہی بتاتے ۔(35)        

لولاکتاب من اللہ سبق :اسی طرح غزوہ بدرکے سلسلہ میں آیت کریمہ لولاکتاب من اللہ سبق لمسکم فی ما اخذتم عذاب عظیم(الانفال:58) (اگراللہ کی طرف سے ایک حکم نہ ہوتا جو پہلے ہی صادرہوچکاہے تویقینااس مال غنیمت کی وجہ سے جوتم نے لیاہے تم پر عذاب آپڑتا)کے بارے میں جوعام تفسیرہے وہ یہ کہ مکہ کے سترمشرک قیدیوںکو فدیہ لے کرچھوڑدیاگیااس پر عتا ب کے بطوریہ آیت نازل ہوئی ۔ 

اس کی تشریح علامہ نے یوں کی ہے کہ: ”چونکہ اللہ تعالی پہلے ہی طے فرماچکاہے کہ امت محمدیہ کے مجاہدین کو شکست خوردہ کفارکا مال لیناجائز و حلال ہے ،اس لےے اس جنگ میں جواموال غنیمت تم نے حاصل کےے ہیں انہیں تمہارے حق میں جائز رکھاگیاہے ،اگراللہ تعالی کا یہ حکم سابق نہ ہوتاتوتمہارایہ پو ری طرح قابوپالینے کے باوجودکفارکی اچھی طرح خونریزی سے گریز کرکے اموال غنیمت جمع کرنے پر ٹوٹ پڑنااللہ کی نعمت کی ناقدری اورمتاع دنیاکی طر ف رغبت کے معنی میں ہونے کی وجہ سے ایسی سخت بات تھی کہ اس کی وجہ تم عذاب عظیم کی گرفت میں آجاتے ،خیرتمہاری یہ غلطی معاف کردی گئی لہذاخمس نکالنے کے بعد جو مال غنیمت تمہیں حصہ میں ملاہے اسے شوق سے اپنے تصرف میں لاﺅ“اس کے بعداس آیت کریمہ کے سلسلہ میں مشہورعام تفسیرپر یوں نقدکرتے ہیں:

”مفسرین سے بعض روایات کی وجہ سے ان آیات کا صحیح مطلب سمجھنے میں چوک ہوگئی ہے ۔انہوںنے یہ سمجھاسمجھایاہے کہ غزوہ بدرمیں جو سترکفارگرفتارہوئے تھے ،اورنبی کریم ﷺ نے ابوبکر وغیرہ کے مشورہ سے فدیہ لے کررہاکردیاتھا توان آیات میں اسی پر عتاب کیا گیا ہے ،اوربتایاگیاہے کہ ان قیدیوںکومارڈالناہی اولی وانسب تھانہ کہ فدیہ لے کرچھوڑدینا۔لیکن حضرات مفسرین نے اگرکماحقہ ان آیات پر غور کیاہوتااوران روایات کوبھی پرکھاہوتاتواس غلط فہمی میں نہ پڑتے “۔(۳۷)

مفسرین ایک روایت یہ بیان کرتے ہیںکہ ان قیدیوں کے متعلق وحی الٰہی نے مسلمانوں کو اختیاردیاتھاکہ چاہوتوانہیں قتل کردوچاہوتوفدیہ لے کرچھوڑدولیکن چھوڑوگے توآئندہ سال تم سے سترآدمی شہیدہوں گے ،صحابہ نے اسی کوترجیح دی “اس بارے میں علامہ کاکہناہے کہ یہ کوئی حدیث نہیں ،بلکہ واقدی اورسدی جیسے افسانہ طراز راویوں کی افسانہ طرازی ہے ۔امام بخاری توکیاامام مسلم نے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔حیرت ہے کہ ان لوگوںنے یہ نہ سوچاکہ اگراللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اختیاردیاہوتاتوفدیہ لےنے پرعتاب کیوں ہوتااوراسے عذاب عظیم کا سزاوارکیوں قراردیاجاتاکیونکہ جب کسی کو دوکاموں کااختیاردیاجائے کہ خواہ یہ کرخواہ وہ کرتووہ ان دوشقوںمیں سے جوشق بھی اختیار کرے بہرحال لائق ملامت نہیں ہوتا۔“(۳۸) )اس کے بعدصحیح مسلم کی ایک متعلق روایت کوبھی زیرِنقدلائے ہیں ،جس پر بحث تفصیلی ہے اورتین صفحات تک چلی گئی ہے ۔اس کے علاوہ اس واقعہ سے متعلق ترمذی کی روایت کردہ روایتوں پر بھی مفصل نقدکیاہے ۔ (۳۹)

فاسق سے حضرت ولیدؓمرادنہیں:اسی طرح آیت کریمہ واذاجائکم فاسق بنباءفتبینوا (الحجرات :6)میں بہت سارے مفسرین نے فاسق سے مرادحضرت ولیدبن عقبہؓ کو لیاہے جوعمال عثمان میں اہم شخصیت تھے ،اورجن پر حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓاورحضرت عثمانؓ تینوں خلفاء نے اعتمادکیااوراہم مناصب پر فائزرکھا۔مگرخلیفہ مظلوم حضرت عثمان  کو بطورخاص باغیوں نے اورامت کے بہت سے علماءنے ولیدکو کوفہ کی امارت دینے پر ظالمانہ طورپر مطعون کیاہے ۔مفسرگرامی نے اس سورہ کی تفسیرمیں ان تمام روایات کا تفصیل سے ناقدانہ جائزہ لیاہے اورسب کو موضوع ثابت کرکے حضرت ولیداموی کی شخصیت کوداغدارکرنے والے قصہ کے تاروپودبکھیرکررکھ ديے ہیں جس کوہمارے مفسرین نمک مرچ لگا کربیان کرتے ہیں۔(40)

ابراہیم علیہ السلام اورکذبات ثلاثہ :اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سربعض مفسرین نے بخاری کی ایک روایت سے دھوکہ کھاکرکذب کا الزام منڈھ دیاہے حالانکہ وہ روایت مرفوع متصل نہیں حضرت ابوہریرہ کی موقوف روایت ہے جوان کو کعب احبارسے معلوم ہوئی تھی ۔اس بارے میں مفسرگرامی نے لکھاہے : ”اس طرح اہل کتاب کی متعدداناپ شناپ باتیں کتب حدیث وتفسیرمیں احادیث نبویہ کے طورپر جگہ پاگئیں۔ازاںجملہ یہ حدیث ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عمرمیں تین بارجھوٹ بولاتھا۔ایک باراُس وقت جب بتوں کوتوڑنے کے ليے اپنی بیماری کا بہانہ کردیاتھا،دوسری باراس وقت جب کہ دیاتھاکہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑاہے تیسری باراس وقت جب اپنی بیوی سارہ کو بادشاہ مصرکے ڈرسے اپنی بہن بتایاتھا۔مگریہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ نہیں ہے ۔ابوہریرہ  نے کعب احباریاکسی اورنومسلم ےہودی سے سنی تھی اوراس کا حوالہ ديے بغیراس کا ذکرکردیاتھا،اورسادگی کی بناءپر اس نومسلم ےہودی کی بیان کی ہوئی اس کہانی کو عقل ونقل کی میزان میں نہ تولاتھاکہ اس کا جھوٹ ہوناان پر واضح ہوجاتا۔ صحیح بخاری کی کتاب الانبیاءمیں اس حدیث کی جواسنادمذکورہے وہ واضح طورپر بتارہی ہے کہ یہ حدیث مرفوع یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نہیں ہے۔امام بخاری  فرماتے ہیں: حدثناسعیدبن تلید الرعینی اخبرنی ابن وہب اخبرنی جریربن حازم عن ایوب عن محمدعن ابی ہریرة  قال قال رسول اللہ ﷺ لم یکذب ابراہیم الاثلاثا ح وحدثنامحمد بن محبوب ثناحماد بن زید عن ایوب عن محمد عن ابی ہریرةؓ قال لم یکذب ابراہیم الاثلاث کذبات ۔الح یعنی حضرت ابوہریرہ  سے یہ بات محمدبن سیرین نے اوران سے ایوب سختیانی نے سنی تھی ،اورایوب سے دوشخصوں جریربن حازم اورحمادبن زیدنے –اورائمہ رجال نے تصریحات کی ہیں کہ جریربن حازم ضعیف الحفظ تھے ،جریرکی بیان کردہ اُن ہی حدیثوں پر اعتمادکیاجاتاہے جوجریرنے اعمش سے سنی تھیں–جریرکی اسنادمیں ہے کہ ابوہریرہ  نے کہا،فرمایارسول اللہ ﷺ نے “لیکن حماد بن زیدنے جو جریرسے بدرجہاقوی تراورثبت وثقہ محدث تھے اس کی اسناد میں رسول اللہ ﷺ کا ذکرنہیں کيا بلکہ اسے خودابوہریرة  کے قول کے طورپر بیان کیاہے ۔الحاصل جریرنے اسے حدیث مرفوع کے طورپر بیان کیاہے ، اورحمادبن زیدنے حدیث موقوف اورقول ابوہریرہ  کے طورپر۔پس اسے مرفوع یعنی حدیث نبوی بتادیناجریربن حازم کا وہم ہے ۔یہ مرفوع حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت ابوہریرہ  کی بیان کی ہوئی بات ہے جو انہوںنے کعب احباریاکسی اورشخص سے سن کرنقل کردی تھی اور اس نے تلبیس یہ کی کہ بائبل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام وسارہ کی جو عمرمذکورہے اس کا ذکرنہیں کیاورنہ ابوہریرہ سمجھ لیتے کہ یہ محض جھوٹ ہے ۔(بائبل کے بیان کے مطابق شاہ مصرکے ڈرسے سارہ کواپنی بہن بتانے کے وقت حضرت ابراہیم کی عمر۷۵ سال سے متجاوز اورسارہ کی عمر45 سے زیادہ ہوچکی تھی (مصنف مقالہ ) (41) واضح رہے کہ کذبات ثلاثہ کی اس حدیث کو امام رازیؒ سمیت متعددقدیم وجدیداہل ِعلم نے بھی درایت کی بنیادپرمسترد کردیاہے۔مگربخاری پرست لوگ ان پر شدیدنقدکرتے ہیں۔البتہ اس قصہ کو سندکی بنیادپر علامہ میرٹھی ہی نے پہلی بارردکیاہے۔

تحویل قبلہ کی بحث : مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات یہ ہے کہ بیت المقدس قبلہ اول رہاہے ۔اورتحویل قبلہ کے بعدکعبہ کو مستقل قبلہ بنایا گیا ۔مگرصاحب مفتاح القرآن کے نزدیک تحویل قبلہ والی روایات کمزورہیں اورتحویل ِقبلہ ہواہی نہیں کعبة اللہ ہی ہمیشہ قبلہ رہاہے ۔ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:

۱۔تحویل قبلہ کی روایات حضرت براءبن عازب سے مروی ہیں جوسب روایت ودرایت کے اعتبارسے کمزورہیں ۔(واضح رہے کہ تفسیر میں انہوںنے تمام روایات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیاہے) ۔

۲۔نبی کریم نے مکہ یامدینہ دونوں جگہ ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے ہی نماز پڑھی ہے ۔بعض انصاری صحابہ نے البتہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نمازضرورپڑھی ہے۔اوراسی وجہ سے یہ تحویل ِقبلہ والی بات مشہورہوگئی ہے۔

۳۔ بیت المقدس توخودکعبہ رخ ہے ،اسی طرح قدیم مسجدیں،مسجدصخرہ اورمسجدنوح اورمسجدصالح سب قبلہ رخ ہیں پھربیت المقدس کوقبلہ اول کہناکیسے درست ہوسکتاہے ۔

۴۔فلنولینک قبلة ترضاھا(البقرہ :۱۴۴ )کا عام ترجمہ کہ ہم تمہارارخ تمہارے پسندیدہ قبلہ کی طرف پھیردیں گے غلط ہے کیونکہ ولی کا معنی والی بنانا ہوتا ہے ،پھیرنے کے معنی میںاس کا استعمال الی کے صلہ کے ساتھ کرتے ہیں۔اس ليے صحیح ترجمہ ہوگاہم تم کو تمہارے پسندیدہ قبلہ کاوالی بنادیں گے ۔اسی طرح قدنری تقلب وجہک فی السماء(البقرہ :144 ) کا ترجمہ یہ کرناکہ ”ہم آپ کا باربارآسمان کی طرح رخ کرنادیکھ رہے ہیں“اس لےے صحیح نہیں کہ یہ تقلب وجہک الی السماءکا ترجمہ ہے ۔اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ”ہم آسمان میں آپ کی بے چینی کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔یعنی تقلب وجہ کنایہ ہے بے چینی واضطراب سے ۔

۵۔قدیم مفسرین وعلماءمیں ابومسلم اصفہانی اورامام ابوالعالیہ ریاحی بھی اسی کے قائل تھے کہ قبلہ ہمیشہ کعبة اللہ رہاہے ۔

۶۔تحویل قبلہ ہواہوتاتواس کے بعدمسجدنبوی اورمسجدقبامیں تعمیری تغیرات کيے جاتے جوضرورمنقول ہوتے کیونکہ مسجدنبوی کے تمام تعمیری

 تغیرات تواترسے منقول ہوتے آرہے ہیں ۔

تحویل قبلہ کی یہ بحث تفسیرمیں تقریبا ۲۰ صفحات میں آئی ہے اوراہل علم کے مطالعہ کے لائق ہے ۔(۴۲)

منفردترجمہ آیات : متعددآیات کے ترجمہ میں بھی مفسرگرامی نے الگ ہی راہ اپنائی ہے ۔مثال کے طورپر(۱)وہ آیت بسم اللہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں :

”اللہ کے نام رحمان ورحیم کے ساتھ آغاز ہے “۔آگے اس ترجمہ کی وضاحت یوں کی ہے کہ: میں نے جوبسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ کیاہے وہ اس پرمبنی ہے کہ ترکیب نحوی کے لحاظ سے اس میں اسم اللہ مبدل منہ ہے اورالرحمان الرحیم اس کا بدل ہے۔عمومااس میں اللہ کوموصوف اور الرحمان الرحیم کو صفت اول وثانی قراردیکراسم کا مضاف الیة قراردیاجاتاہے اوراسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہیں“(43)

(۲)لکل جعلنامنکم شرعة ومنہاجا (المائدہ :48 )کا ترجمہ یوں کےاہے :(اے لوگو)تم میں سے ہرایک کے ليے ہم نے ایک ہی گھاٹ اورایک ہی سڑک کا تقرر کردیاہے۔(مرادہے قرآن وسنت،مصنف مقالہ )دوسرے مفسرین وعلمایہ کہتے ہیں کہ اس میں ہرقوم کے ليے الگ مذہب وطریقہ کا بیان ہے۔جوظاہرہے کہ نصوص شریعت سے متصادم ہے ۔ اسی طرح اوربہت ساری آیات ہیں جن کاترجمہ مصنف علام نے دوسرے مترجمین ومفسرین سے الگ کیاہے۔

قرآن پورامحکم ہے متشابہ گزشتہ کتابیں ہیں :۔عام طورپر یہ مشہورہے کہ قرآن میںدوقسم کی آیتیں ہیں محکم ومتشابہ ،پھرمحکم ومتشابہ کی الگ الگ تشریح کی جاتی ہے اوراس بارے میں مبنیٰ سورہ آل عمران کی ساتویں ہوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات، ہن ام الکتاب واخر متشابہات(آل عمران:۷ ) کوبنایاجاتاہے ۔مگرعلامہ میرٹھی اس عمومی رائے سے اتفاق نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ قرآن توپورامحکم ہے جیساکہ خودقرآن ہی میں کئی جگہ فرمایاگیاہے ،مثلاایک جگہ ہے : کتاب احکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر( ھود: 1) : الف لام را یک حکمت والی باخبرہستی کے پاس سے آئی ہوئی کتاب جس کی آیتوںکو پختہ کیاگیاہے پھرالگ الگ (سلسلہ بیان میں)ٹانکاگیاہے ۔جب اس کی آیات محکم ہیں توپھرمتشابہ کاسوال کہاںاٹھتاہے ۔اس ليے ان کی رائے یہ ہے کہ قرآن کریم توپورامحکم ہے ،بقیہ صحف سماویہ متشابہ ہیں۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت ہوالذی انزل علیک الکتاب منہ آیات محکمات ہن ام الکتاب ،واخرمتشابہات کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں: وہی ہے جس نے (اے نبی ) تجھ پر اپنی طرف سے کتاب نازل فرمائی ہے ،وہ محکم آیتیں ہیں جو خدائی کتابوں کی جامع ومرکزہیں اوردیگرکتابیں یعنی بائبل کے صحیفے حق وباطل آمیز ہیں ۔اس تفسیرکے مطابق ھن ام الکتاب پر وقف کرناچاہيے اورواخرمتشابہات کو الگ فقرہ کی طرح پڑھاجاناچاہيے۔(44 )

تورات وانجیل تاریخی طورپر معتبرنہیں:۔سورہ آل عمران میں واخرمتشابہات کی تفسیرمیں تورات وانجیل دونوں کی استنادی حیثیت پر طویل گفتگوخودبائبل اورانسائکلوپیڈیابریٹانیکاکے حوالہ سے کی ہے ۔(45)

ہذاربی ہٰذااکبرکی صحیح تفسیر: سورہ انعام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکرمیں اس سلسلہ آیات میں کئی جگہ ھٰذاربی آیاہے جس کو عام طورپر مفسرین ابراہیم کا قول مان لیتے ہیں اوراس پر ہونے والے اعتراض کہ ایسا شرکیہ جملہ کسی نبی سے کیسے صادرہوسکتاہے ،کی دورازکارتاویلیں کرتے ہیں ،مولانامودودی نے اس با ت کو ابراہیم کا اس وقت کا قول بتادیا ہے جب وہ تلاشِ حق کے دورسے گزررہے تھے مگرسوال یہ ہے کہ کیاانبیاءاس دورسے گزراکرتے ہیں ؟ ان کو تو زندگی کے ہردورمیں حق تعالی کی نگرانی ومعیت حاصل رہتی ہے گرچہ خودان کو اس کا شعورنہ ہوتاہو۔علامہ میرٹھی نے اس کی تفسیریوں کی ہے : فلماجن علیہ اللیل را کوکباقال ہٰذاربی ہٰذااکبر،فلماافل قال لا احب الآفلین فلمارا القمربازغاقال ہٰذاربی ،فلماافل قال لئن لم يہدنی ربی لاکونن من القوم الضالین،فلمارا الشمس بازغة قال ہٰذاربی ہٰذااکبر،فلماافلت قال یاٰقوم انی بریئی مماتشرکون (الانعام:75تا۷۸ ): پس جب اس پر رات چھاگئی تواس نے یعنی آذر نے آسمان پر ایک ستارہ دیکھابولایہ میرارب ہے پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہا،میں چھپ جانے والے کو پسندنہیں کرتا۔پس جب آذر نے چاندکو روشن دیکھاتوبولایہ میرارب ہے میں اس کی عبادت کرتاہوں، جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہامیں قسم کھاکر کہتا ہوںکہ اگرمیرارب مجھے راہ راست نہ دکھائے تویقینامیں گمراہ لوگوںمیں سے ہوجاﺅںگا“ اس کے بعدجب آذر نے سورج کو چمکتا دمکتا دیکھابولایہ میرارب ہے یہ (میراسب سے) بڑامعبودہے ۔پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہااے میری قوم بے شک میں تمہارے شرک سے بیزارہوں(ان چیزوں سے بیزارہوں جنہیں تم شریک کررہے ہو“۔

اس کے بعدلکھتے ہیں: ”ان آیات میں فعل راکا فاعل اورہذاربی کا قائل حضرت ابراہیم کا باپ آذرہے جیساکہ میں نے ترجمہ میں واضح کردیا ہے ،کیونکہ ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورآذرکا مکالمہ نقل کیاگیاہے ۔اوربادنی تامل ہرقول اپنے قائل کی طرف راجع ہوجاتا ہے “۔اس کے بعدانہوں نے اس کے نظائرقرآن سے نقل کيے ہیں۔اوریہ بھی واضح کیاہے کہ باپ بیٹے کے درمیان یہ بلیغ مکالمہ اور ڈائلاگ مختلف اوقات میںاورمختلف جگہوں پر ہواہوگا،قیاس کہتاہے کہ یہ گفتگوزہرہ دیوی ،چندرماں دیوتااورسورج دیوتاکے مندروں میں ہوئی ہوگی جن کو ابراہیم کی قوم پوجتی تھی ۔(46)

واقعہ افک :واقعہ افک کے سلسلہ میں مصنفؒ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عائشہ  پر الزام کاشوشہ روافض کا چھوڑاہواہے ۔جتنی روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں (بشمول بخاری کی روایات کے )کوئی بھی علت قادحہ سے خالی نہیں ۔بخاری کی روایات میں متعددباتیں زہری کی مرسلات میں سے ہیں جن کی اہل علم کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کا کہناہے مرسلات الزہری کا الریح وغیرہ ،پھرتاریخی طورپر بھی ان روایات میں سقم پایاجاتاہے ۔(46))

صحف سماوی کا مطالعہ :مفسرگرامی نے دیگرصحف سماویہ بائبل وتوریت کا بھی گہرامطالعہ کیاتھا،اوراپنی تفسیرمیں جابجاان کے حوالے بھی ديے ہیں ،سلیمان وداود علیہماالسلام کے قرآنی قصہ کا تقابل بائبل کے بیانات سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:حضرت داود وسلیمان علیہ السلام اللہ کے نیک ومقبول بندے اورنبی تھے اورساتھ ہی بڑی شان وشوکت والے بادشاہ بھی ۔اوران کی بادشاہی تمام حکمرانوں کے ليے اعلی نمونہ ہے ،اللہ کی دی ہوئی قوت کو انہوں نے دین حق کی ترویج وتبلیغ میں ہی صرف کیاتھا۔مگرداودوسلیمان کا ذکراسرائیلی کتابوں میں پڑھيے توان میں اوردنیاکے دیگرجباروں میں کوئی فرق نظرنہ آئے گاملکہ سباکا حضرت سلیمان سے ملاقات کے ليے آنااسرائیلی کتابوں میں بھی مذکورہے مگراس میں غلط اور گندی باتوں کی آمیزش ہے ۔بائبل کے صحیفہ سلاطین میں یہ قصہ جس طرح لکھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ سلیمان کی شہرت سن کر مشکل سوالوں سے اسے آزمانے کے ليے آئی ۔سب سوالوں کا جواب باصواب پاکراورسلیمان کی شان وشوکت ان کے خدام کی تہذیب اورسج دھج دیکھ کردنگ رہ گئی اوراعتراف کیاکہ میں نے آپ کو جیساسناتھا اس سے کہیں بڑھ کرپایا،نیز اس نے سلیمان کو ایک سوبیس قنطار سونا ، اورالائچی وغیرہ بہت بڑی مقدارمیں نذرکیا۔سلیمان نے بھی جوابااسے بہت کچھ تحائف سے نوازا۔پھروہ اپنے ملازمین سمیت اپنی مملکت کو واپس ہوگئی (سلاطین باب ۱۰) اس میں نہ ہدہدکا ذکرہے نہ ملکہ کی آفتاب پرستی کا نہ حضرت سلیمان کے خط کانہ ملکہ کے تخت کا ۔اورصحیفہ ربیون میں یہ سب باتیں توہیں لیکن اس میں توحیدوخداپرستی وشکرِحق کی کوئی بات مذکورنہیں۔یہ ضرور ہے کہ سلیمان نے معاذ اللہ ملکہ بلقیس سے زناکیااسے حمل رہ گیا۔اس ناجائز حمل کی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصرپیداہواتھا(جیوش انسائلوپیڈیا ج ۱۱ صفحہ ۴۴۳) اسی کتاب کے صفحہ 439 وص 441 میں حضرت سلیما ن پر احکام تورات کی خلاف ورزی ،غرورحکومت ،غرورعقل ،زن مریدی ،عیاشی اورشرک وبت پرستی کے الزامات مذکورہیں اوربائبل کی کتاب سلاطین میں لکھاہے کہ سلیمان مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا،اس کا دل خداسے پھر گیا تھا اوروہ خداکے سوادوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ حضرت داود وحضرت سلیمان علیہماالسلام کی پاکیزہ سیرت منظرعام پررکھ دی ہے اورتمام دھبوںکو دھوڈالاہے جودروغ باف ےہودیوںنے ان بزرگوںکی سیرت پر لگائے تھے“۔(48)اس کے علاوہ بھی مفسرگرامی نے اپنی تفسیرمیں بائبل اورقرآن کے بیانات کا جگہ جگہ تقابل کیاہے ۔مثال کے طورپر قصہ نوح کا بائبل کے بیانات سے تقابلی مطالعہ ملاحظہ ہو:

”مناسب معلوم ہوتاہے کہ بائبل عہدنامہ قدیم کے سفرتکوین یعنی کتاب پیدائش میں یہ قصہ جس طرح آیاہے ناظرین اسے بھی دیکھ لیں، میں اس کا خلاصہ نقل کررہاہوں:روئے زمین پر آدمیوں کی کثرت ہوئی اوران سے بیٹیاں پیداہوئیں،خداکے بیٹوں نے انہیں دیکھاتوان پر فریفتہ ہوکرانہیں اپنی جوروبنالیاان سے بیٹے پیداہوئے ۔یہ بڑے جباروناموراشخاص ہوئے ،ان میں بدی بہت پھیل گئی تب خداوند زمین پر انسان کے پیداکرنے سے پچھتایااورنہایت دلگیرہوااوراسے مٹانے پختہ ارادہ کرلیابجزنوح کے ،وہ خداکو پسندتھا“۔اس پر ان کا نوٹ ہے : ”دیکھاآپ نے اس بیان کے مطابق قوم نوح کے لوگ انسان نہ تھے ،خداکے بیٹوں اورانسانوں کی بیٹیوں سے پیداہوئے تھے ۔( ۴۹)الخ یہ تقابلی نوٹ کافی طویل ہے اورچارصفحات تک چلاگیاہے ۔

قصہ یونس :یونس علیہ السلام کے قصہ میں عام طورپر مشہورہے کہ وہ مدتوں اپنی قوم کودعوت حق دیتے رہے اورقوم کی سرکشی اورایمان نہ لانے سے ناراض ہوکران کو عذاب کی دھمکی دے کراوربغیراذن خداوندی کے ا ن کے ہاں سے نکل گئے اوران کے غائبانہ میں قوم پر عذاب آیا جسے دیکھ کر قوم تائب ہوگئی ۔ادھرحضرت یونس جس کشتی میں سوارہوئے وہ نہ چلی اورڈبکیاں کھانے لگی ،لوگوں نے کہاکہ کوئی غلام اس پر اپنے آقاسے بھاگ کرآگیاہے اس لےے یہ نہیں چل رہی ہے۔آخریونس کوکشتی والوں نے دریامیں ڈال دیااورحکم حق سے مچھلی آپ کونگل گئی ۔ آخرصحت یاب ہوکروطن واپس آئے اورقوم نے محبت وعقیدت سے استقبال کیا وغیرہ۔علامہ میرٹھی اس قصہ کوغلط سمجھتے ہیں ،ان کا کہناہے کہ حضرت یونس کے نبی بنائے جانے سے پہلے کا یہ قصہ ہے کہ وہ کسی بات پرناراض ہوکراپناوطن چھوڑکرنکل گئے ہوں گے ۔اورکشتی میں بیٹھے ہوں گے جوزیادہ بوجھ ہوجانے کی وجہ سے ڈبکیاں کھانے لگی ہوگی اورحضرت یونس کا پیرپھسلاہوگااوروہ دریامیں جاگرے ہوں گے ۔جہاں ان کو مچھلی نے اللہ کے حکم سے نگل لیا۔اوراس کے بعدجب مچھلی نے ان کوکنارے پرڈالا،جہاں وہ کچھ دنوں بعدصحت مندہوئے ہوں گے تب ان کو نبی بناکرقوم کے پاس بھیجاگیاہے کیونکہ اسی سیاق میں قرآن نے کہاہے وارسلناہ الی ما ة الف اویزیدون ( الصافات:127 )۔مشہورِعام قصہ پرنقدکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

”لیکن حضرت یونس کا قصہ اس انداز میں نہ قرآن میں مذکورہے نہ کسی صحیح حدیث میں نہ بائبل میں ۔اورمیں اسے بچندوجوہ غلط سمجھتا ہوں ، اس ليے کہ : (الف) کسی نبی کے متعلق یہ تصورنہیں کیاجاسکتاکہ اس نے اللہ کے حکم کے بغیرقوم کو کوئی بات بتائی ہو

(ب)ہررسول نے اسی وقت ہجرت کی ہے جب اللہ نے اسے ہجرت کرنے کا حکم دیا،یہ جاننے کے باوجودحضرت یونس اللہ کے اذن کے بغیرہجرت کیسے کرسکتے تھے۔؟

(ج)قرآن کریم میں دوجگہ قوم یونس کے ایمان لے آنے کا ذکرہے سورہ یونس میں اورسورہ صافات میں اورکہیں بھی یہ مذکورنہیں کہ قوم یونس نے اولاکفروتکذیب کی روش اختیارکی تھی جیساکہ اس داستان میں مذکورہے ،نہ قرآن میں نہ حدیث صحیح میں نہ بائبل میں ۔

(د) مالک کے پاس سے بھاگاہواغلام کشتی میں بیٹھ جائے اوروہ نہ چلے یہ نامعقول بات کیسے مان لی جائے ؟(۵۰)

تفردات : کتاب وسنت کے مسلسل تحقيقی مطالعہ نے مفسرگرامی کے اندر اجتہادی بصيرت پيداکی انھوں نے متعدد مسائل ميں جمہور سے کھلا ہوااختلاف کيا۔ان کی تحقیق میں اہل البیت یاآل البیت سے مرادازواج مطہرات ہیں نہ کہ سیدہ فاطمہ و سیدناعلیؓ اوران کی اولاد سیدنا حضرت حسنؓ یاسیدناحسینؓ وغیرہ ،اس بارے میں جتنی روایات آئی ہیں سب کا انہوں نے سورہ آل عمران اورسورہ احزاب میں جائزہ لیا ہے ۔ اس کے علاوہ واقعہ ایلاء،آیت تخییرآیت مباہلہ،سیدہ زینب  سے حضوراکرم ﷺ کا نکاح ،ان سب کے بارے میں غلط روایات کی تحقیق کرکے اصل صورت واقعہ کو پیش کیاہے ۔مزیدبرآں قرأت سبعہ کا مسئلہ، اجماع کا ثبوت، نسخ کا مسئلہ، تحوےل قبلہ، واقعہ افک، خبر واحد کی قطعےت کا مسئلہ وغےرہ کے علاوہ سيکڑوں احاديث اور آيات کی تشريح و توضيح ميں وہ جمہورسے بالکل الگ رائے رکھتے ہيں اوران کا جرات کے ساتھ اظہار بھی کےاہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ متاخرين ميں ان کے تفردات سب سے زيادہ ہيں تو غالباً بے جانہ ہوگا نہ اس ميں کوئی مبالغہ ہوگا، يہ تفردات يا اجتہادی رائيں دراصل ان کی دراکی ، وسعت مطالعہ، تخليقی ذہن، فکری شادابی، حاضر دماغی ،علوم کے استحضار اور اعتماد ذاتی کی پيداوار ہيں۔مسائل کے سلسلہ ميں ان کی نظر جزئيات سے زيادہ کليات پر رہتی تھی۔ فقہی نقطہ نظر ميں وسعت تھی ہر حال ميں کسی ايک مسلک کی تقليد و تنقيد کو ضروری خيال نہيں کرتے تھے۔ علمی اختلاف و تحقيق ان کی نظر ميں علماءکی متوارث چيز تھی۔ چنانچہ انھوں نے محدثين کی رايوں اور فقہاءکے اجتہاد ات سے خوب خوب اختلاف کيا ہے۔

صرفی ونحوی مباحث : تفسیرمفتاح القرآن کی ایک خصوصیت جس نے اس تفسیرکو ثقیل اورعام تعلیم یافتوں یاغیرعربی داں لوگوں کے ليے مشکل بنادیاہے وہ صرفی ونحوی مباحث ہیں ،جن کا مصنف نے بڑی باریک بینی اورجزرسی کے ساتھ اہتمام کیاہے ۔اس کا خیال ان کوتھا اوراسی ليے اپنی تفسیرکے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :”البتہ کہیں کہیں ضرورةً اس میں کوئی فنی بات بھی آگئی ہے جیسے ترکیب یالغوی وصرفی تحقیق ۔ظاہرہے کہ وہ عربی داں حضرات ہی کے سمجھنے کی چیز ہے ،غیرعربی داں حضرات مطالعہ میں اِس سے صرف نظرکرجائیں یاکسی عربی داں سے پوچھ کرسمجھ لیں “۔ (۵۱) اصل میں متقدمین کی تفاسیرمیں یہ چیز بالکل عام ہے اورسلف میں کم وبیش ہرمفسراس کا اہتمام کرتارہاہے ۔خاص طورابوحیان اندلسی نے اور زمخشری نے اس کا بہت اہتمام کیاہے ۔سلف کی متابعت میں علامہ میرٹھی نے بھی پوری تفسیرمیں اِس کا بہت زیادہ اہتمام کیاہے ۔اصل میں ان کے سامنے علماءوطالبا ن علوم عربیت رہے ہیں ۔اوران کے خیال میں قرآنی آیات کی صرفی تحقیق اورنحوی ترکیب صحیح فہم کے ليے نہایت ضروری ہیں ۔کتنے ہی مقامات ہیں جہاں صحیح ترکیب سمجھ میں نہ آنے سے لوگوں نے معنی کچھ کے کچھ بناديے ہیں ۔اس بارے میں علامہ کو زیادہ شکوہ صاحب تفہیم سے تھا،جو ان کے نزدیک عربیت کے اورصرف ونحوکے اغلاط سے بھری پڑی ہے۔تاہم راقم کے خیال میں مولانامودودی کا مخاطب طبقہ عصری طبقہ اورعوام تھے ،جن کو ان دقیق مباحث سے کوئی سروکارنہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ تفہیم القرآن عام فہم ہے اورمفتاح القرآن اپنی ساری خوبیوں کے باوجودعصری طبقہ کے ليے مشکل بن گئی ہے ،تاہم طالبان قرآن اورعلماءومحققین کے ليے اس کا مطالعہ ناگزیرہے ۔

 ہم نے تفسیرمفتاح القرآن سے ہم نے یہ کچھ مثالیں اورنمونے پیش کيے ہیں جوخاصے ہیں اورہمیں احساس ہے کہ قارئیں بوجھل ہوجائیں گے ،اسی وجہ سے انہی مثالوںپر اکتفاکررہے ہیں ورنہ مصنف کے اجتہادات،تفسیری روایات کی تحقیقات اورنئے نئے معانی مفاہیم کا ایک بڑاذخیرہ ہے جس سے یہ تفسیرمالامال ہے ۔یہ چندمثالیں تومشتے نمونہ ازخروارے کی حیثیت سے نقل کردی ہیں ورنہ اس تفسیرمیں ایسے صدہا مقامات ہیں جہاں مفسرگرامی نے متقدمین ومتاخرین کی تفسیرکو قبول نہیں کیااوراپنی الگ ہی تشریح پیش کی ہے ۔اس سلسلہ میں انہوں نے نقل صحیح ،نقد حدیث ،درایت ، عربیت کے اسلوب ،نظم کلام اورقلب سلیم سے کام لیاہے ۔،تفسیرمفتاح القرآن کے اس سرسری سے مطالعہ سے صاحبِ تفسیرکی یہ بات مبرہن ہوکرسامنے آتی ہے کہ ”لیکن متقدمین ومتاخرین کی اِ ن تمام قابل قدرومسحق احترام مساعی کے باوجودیہ خیال کرلینامناسب نہ ہوگاکہ قرآن کریم کے متعلق ترجمہ وتفسیرکا اردویاعربی یاکسی بھی زبان میں اتناکام ہوچکاہے کہ اب ایک نیاترجمہ یاایک نئی تفسیرشائع کردیناوقت اورمحنت کا صحیح مصرف نہیں ہے ۔واقعہ يہ ہے کہ جوکچھ ہواہے و ہ بہت کم اورناکافی ہے اس بارے میں مسلسل محنت کرنے اورکوشش کرنے اورکرتے رہنے کی ضرورت ہے “۔(۵۲)

راقم خاکسارکے نزدیک اس تفسیرکی ایک اورخوبی یہ ہے کہ وہ صرف قرآن کو محوربناتی ہے۔صحیح حدیث کو اس کی تشریح سمجھتی ہے ،باقی چیزوں اور دوسرے علوم کو اس میں زبردستی نہیں گھسیڑاگیاہے۔اس میں نہ بہت زیادہ فقہی مباحث ہیںنہ ہی وہ کلامی مباحث سے بوجھل ہے اورنہ اس میں بے جا صوفیانہ وعارفانہ نکتہ طرازی کی گئی ہے۔نہ اس میں فلسفہ ومنطق یاجدیدسائنس کی معلومات بھردی گئی ہیں بلکہ مصنف نے قرآن سے جوسمجھاہے اسی کو لکھ دیاہے ۔البتہ جولکھاہے وہ خوب چھان پھٹک کراورتحقیق وتفتیش کے بعد۔نیز اس کی زبان بڑی دل آویز ،رواں ،سادہ اوردل کش ہے ۔اردومیں کم ہی تفسیریں ہوں گی جن کی اردواتنی صاف ،روا ںاورشستہ ہو۔

اس سرسری سے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہے کہ تفسیرمفتاح القرآن ایک جلیل القدرعلمی تفسیرہے ،بلاشبہ اس میں ظاہرکی گئی بہت سی رایوں سے اختلاف کیاجاسکتاہے اوراختلاف کرنااہلِ علم کا حق ہے۔مگریہ ضرورہے کہ یہ تفسیرکتاب الٰہی کے بہت سے معانی سے پردہ اٹھاتی،بہت سے نئے مباحث اٹھاتی اورنئے نکات سجھاتی ہے۔قرآن کے طالبوں کے لےيے اس کا مطالعہ ناگزیرہے ۔اوربلاشبہ اس تفسیرمیں مصنف نے وہی سمجھانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے جو آیات قرآن کا مطلب ومعنی ہے ۔اورجو بات بھی لکھی ہے نہایت تحقیق اورشرح صدرکے ساتھ لکھی ہے .۔فاونڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی کوشش کررہاہے کہ کتاب عزیز کی اس جلیل القدرتفسیرکو جلدازجلدمنظرعام پر لائے تاکہ قرآنی مطالعات وتحقیقات کاایک نیاباب روشن ہواورطالبان قرآن ایک نئی روشنی میں اپناسفرطے کریں۔

حواشی ومراجع

(۱) امام راغب اصفہانیؒ نے لکھاہے : الفسراظہارالمعنی المعقول ومنہ قیل لماینبئی عنہ البول تفسرة وسمی بہا قارورة الماءوالتفسیرقد یقال فیمایختص بمفردات الالفاظ وغریبہاصفحہ ۳۸۰ دارالمعرفہ بیروت لبنان

(۲)کشف الظنون میں علم تفسیرکی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ تفسیروہ علم ہے جس میں بشری طاقت کی حدتک عربی زبان کے قواعدکے مطابق نظم قرآن کے معنی سے بحث کی جائے اورعلم تفسیرکے موقوف علیہ علوم یہ ہیں(۱) علوم عربیہ (۲)اصول کلام (۳) اصول فقہ (۴) خلافیات اوران کے علاوہ بعض دوسرے علوم ملاحظہ تاریخ افکاروعلوم اسلامی راغب الطباخ ترجمہ افتخاراحمدبلخی جلداول صفحہ ۲۲۵ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی جنوری ۲۰۰۲ئ

(۳) دیکھیںحاشیہ نمبر۲

(۴) فاماتفسیرالقرآن بمجرد الرا ی فحرام ،ابن تیمیہ  ،مقدمہ فی اصول التفسیرصفحہ ۱۰۲

(۵)کیایہ قرآن پر غوروفکرنہیںکرتے ،کیاان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں؟(محمد: 24)

( ۶) تفسیربالرائے اورتفسیربالماثورکی تعریف اورمتعلقہ مباحث کے لبے دیکھیں : راغب طباخ، تاریخ افکاروعلوم اسلامی ترجمہ افتخاراحمد بلخی جلداول صفحہ ۲۲۵ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزنئی دہلی جنوری ۲۰۰۲ءاورعلوم القرآن مولانامفتی تقی عثمانی ،اورالاتقان فی علوم القرآن )

(۷) علامہ میرٹھی  کے تفصیلی تعارف کے لیے دیکھیں: غطریف شہباز ندوی ،ماہنامہ الشریعہ ،الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ ،نومبر 2011اور الشریعہ ڈاٹ نیٹ،غلام نبی کشافی ،افکارملی نئی دہلی کا شخصیات نمبرجولائی ۲۰۰۵ء632/9ذاکرنگرنئی دہلی صفحہ 126-127 )

( ۸) شیخین یعنی امام بخاری ومسلم دونوںکی جلالت قدرکے پورے اعتراف کے باوجودمصنف  کی تحقیق یہ ہے کہ ان دونوں کتابوں میں بھی ضعیف بلکہ بعض موضوع روایتیں بھی جگہ پاگئی ہیں۔اپنی اس تحقیق کو انہوںنے جابجاتفسیرمفتاح القرآن میں بھی بیان کیاہے اور بخاری کا مطالعہ کے نام سے تین اجزاءمیں اختصارکے ساتھ اپناحاصل مطالعہ پیش کیاہے ۔پہلے حصہ میں وہ حدیثیں ذکرکی ہیں جو ان کی تحقیق میں روایت ودرایت کے اعتبارسے درست نہیں ۔دوسرے حصہ میں وہ حدیثیں زیربحث آئی ہیں جوفی نفسہ صحیح ہیں مگران کے بعض اجزاءصحیح وثابت نہیں اورتیسرے جزءمیں امام بخاری کی بعض فقہی وتفسیری رائیں اوراجتہادات زیرنقدلائے گئے ہیں۔اس سیریز کے دو حصے یعنی دوسرا اورتیسراحصہ ابھی شائع نہیں ہوسکے ہیں ۔پہلافاونديشن فاراسلامك استديز

شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی سے شائع ہواہے اورپاکستان میں دارالتذکیرلاہورسے بھی شائع ہواہے۔

(۹) ملاحظہ ہومقدمہ فی اصول التفسیرلابن تیمیہ صفحہ ۷۰

۱۰۔حروف مقطعات کے بارے میں اس مقالہ میں بھی تھوڑی سی تفصیل دی گئی ہے مگرمکمل بحث ملاحظہ ہو تفسیرمفتاح القرآن حصہ اول صفحہ ۳۹ تا47 مکتبہ ازہریہ رائدہنہ ضلع میرٹھ)

(۱۱)علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن سورہ یونس مسودہ صفحہ نمبر200 )

(۱۲)علامہ میرٹھی، مسودہ تفسیرسورہ یونس صفحہ ۲۱۰۔۲۱۱

(۱۳)ملاحظہ ہوعلامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن سورہ آل عمران مکتبہ ازہریہ میرٹھ صفحہ ۲۶۱)

(۱۴)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن پہلاحصہ البقرہ ص134) اور ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ بیسویں صدی میں،کتابی دنیا دہلی ۲۰۰۱ءصفحہ 110 )

(۱۵) علامہ میرٹھی ،اردومترجمین ومفسرین کے بارے میں انہوںنے یہ رائیں اپنے ایک غیرمطبوعہ مختصرسے مضمون ”اردومیں لکھی گئی تفاسیر قرآن “میں ظاہرکی ہيں،یہ مضمون اپنی اصل صورت میں راقم کے پاس محفوظ ہے۔

(۱۶) علامہ میرٹھی لکھتے ہیں :مولاناعبدالماجددریابادی نے عربی نہ جاننے کے باوجودقرآن کریم کی خدمت احتیاط سے کی ہے ۔ترجمہ و تفسیرمیں ان علماءکرام کی باتیں نقل کی ہیں جوان کے نزدیک علم وتقوی میں معتمدعلیہ تھے ۔

(۱۷)حوالہ  بالا،

(۱۸)انہوںنے لکھاہے : ”مودودی صاحب دراصل اردوکے اچھے ادیب وصحافی تھے ،عصرحاضرکے سیاسی افکارونظریات پر بڑی بصیرت ودیدہ وری کے حامل تھے ،نیشنل ازم ،کمیونزم وسیکولرازم پر ان کی تنقیدات بڑی جانداروباوزن ہیں ،تجددپسندلوگوں پربھی ان کی گرفت وتنقید بڑی عمدہ رہی ہے۔لیکن اسلامی علوم ،فقہ ،حدیث ،تفسیرمیں انہیں اچھی دستگاہ حاصل نہ تھی “۔

(۱۹)ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروں کامطالعہ صفحہ 111 )

(۲۰) علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن تفسیرسورہ آل عمران صفحہ ۵ مکتبہ ازہریہ رائے دھنہ ضلع میرٹھ

(۲۱)علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ 4 مکتبہ ازہریہ رائدھنہ میرٹھ)

(۲۲)مولاناامرتسری لکھتے ہیں: ”ان حروف کے معنی بتلانے میں بہت ہی اختلاف ہوا…. میرے نزدیک زیادہ صحیح معنی وہ جوابن عباس ؓ سے مروی ہیں کہ ہرحرف اللہ کے نام اورصفت کا مظہرہے ۔اس لےے میں نے، یہ ترجمہ جسے آپ دیکھ رہے ہیں کیاہے ۔یہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے“۔مثال کے طورپربعض حروف مقطعات کاترجمہ یوں کیاہے الٰم: میں ہوںاللہ سب سے بڑاعلم والا،الٰرا: میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا اورسنتا تفسیرثنائی ،ثناءاللہ امرتسری اکیڈمی دہلی 1979صفحہ 46 اورصفحہ 3

(۲۳)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول صفحہ ۲۹)

(24)( ایضاصفحہ 34)

(۲۵)علامہ میرٹھی ،صفحہ ۲۴۰ مسودہ  تفسیرمفتاح القرآن سورہ ہود)

(26) ملاحظہ ہوعلامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن ،سورہ الانعام ۵۵تا۷۵،شائع کردہ مکتبہ ازہریہ )

(۲۷)ڈاکٹرسیدشاہدعلی،اردوتفسیروںکامطالعہ بیسویںصدی میں صفحہ 110 )

(۲۸)مزیدتفصیل کے لےے نیزاس فلسفہ کی تنقےد کے لےے دےکھے تفسير مفتاح القرآن علامہ شبير احمد ازہر ميرٹھی  حصہ اول صفحہ ۱۰۷تا۱۲۵ مکتبہ ازہريہ ميرٹھ ،الطاف احمداعظمی احياءامت اورتين دينی جماعتيں،پروفسير محمد صبيح الدين انصاری ،کياانسان اللہ کا خليفہ ہے،مکتبہ الفوزان ،ڈاکٹرغطريف شہباز ندوی ،کےاانسان اللہ کا خليفہ ہے؟ ايک علمی بحث،ماہنامہ التبيان دہلی نومبر۲۰۰۷ئ۔ مولاناوحيدالدين خان تذکيرالقرآن طبع ثانی مکتبہ الرسالہ ۲۰۰۷ءصفحہ۲۵)

(۲۹)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہو: تفسیرآل عمران ،صفحہ ۲۴۱)

(۳۰)علامہ میرٹھی، مفتاح القرآن حصہ دوم تفسیرالبقرة صفحہ ۴۴۶)

(۳۱)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن سورہ البقرہ حصہ دوم صفحہ ۴۴۳۔۴۴۴ مکتبہ ازہریہ رائدھنہ ضلع میرٹھ)

(۳۲) علامہ میرٹھی، ایضا

(۳۳)علامہ میرٹھی، مسودہ تفسیرسورہ ہود صفحہ 276 )

(34)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن بنی اسرائیل صفحہ ۷۷)

(۳۵) علامہ میرٹھی، تفصیل ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول ،صفحہ ۱۳ تا۲۹،مکتبہ ازہریہ میرٹھ )

(36)(علامہ میرٹھی ،صفحہ 279مفتاح القرآن حصہ دوم تفسیرسورة البقرة )

(۳۷)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ تفسیرسورہ انفال صفحہ 24 مفتاح القرآن

(۳۸)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ تفسیرسورہ انفال صفحہ 24 مفتاح القرآن

(۳۹)(علامہ میرٹھی ،ایضا صفحہ ۲۵۔۲۷)نیز دیکھیںایضا،ملاحظہ ہوتفسیرآل عمران صفحہ۲۵۰۔۲۵۱ )

(40)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوسورہ حجرات تفسیرمفتاح القرآن مسودہ صفحہ 553-561 )

(4۱)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن ،سورہ صافات ،مسودہ )

(4۲)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومفتاح القرآن حصہ اول صفحہ 373-378 )

(4۳)علامہ میرٹھی ،مفتاح القرآن حصہ اول ص۶۔۷)

(44)(علامہ میرٹھی ،اس کی پوری تفسیرملاحظہ ہو،تفسیرمفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ۱۵،۱4مکتبہ ازہریہ )

(45)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہوتفسیرمفتاح القرآن ،آل عمران صفحہ ۱۲،۱۳،۱4مکتبہ ازہریہ )

(46)علامہ میرٹھی ،پوری بحث ملاحظہ ہو تفسیرمفتاح القرآن سورہ الانعام صفحہ ۷۱تا۷۳شائع کردہ مکتبہ ازہریہ میرٹھ)

(47)علامہ میرٹھی، واقعہ افک کی پوری تحقیق کے ليے ملاحظہ ہوسورة نورتفسیرمفتاح القرآن شائع کردہ مکتبہ ازہریہ میرٹھ) اس مسئلہ پر پاکستان کے حکیم نیاز احمدنے علامہ کی تحقیق سے استفادہ کرکے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی گرچہ اپنے مآخذکا حوالہ انہوں نے نہیں دیا)

(4۸)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن سورہ نمل صفحہ 4۹۹ مسوہ )

(49)علامہ میرٹھی ،مسودہ تفسیرسورہ ہودصفحہ245تا249)

(۵۰)علامہ میرٹھی ،ملاحظہ ہومسودہ سورہ انبیاءصفحہ 244 مفتاح القرآن )

(۵۱)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن مقدمہ صفحہ۵)

(۵۲)علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن مقدمہ صفحہ ۴،۵)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ آزادپیشہ مصنف ،مترجم وصحافی اورڈائرکٹرفاونڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز C-303/3شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی 110025

ای میل : mohammad.ghitreef@gmail.com

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x