ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ٭
٭
موجودہ دورمیں اسلامی فکرکے میدان میں بہت کام ہوا ہے خاص کرروایتی علوم کے احیاء کے سلسلہ میں۔اس کی پوری قدرکرتے ہوئے اب کام کے نئے میدانوں اورنئی جہات پرتوجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔
ذیل کی سطورمیں اختصارکے ساتھ اس کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔اس مجوزہ علمی کام کی دوسطحیں ہیں ایک عالمی دوسری قومی ومقامی۔ لیکن اس تحریرمیں صرف عالمی مسائل سے بحث ہوگی۔ البتہ آخرمیں ایک ایسے پہلوکی طرف توجہ دلانی ہے جوعالمی بھی ہے اورمقامی اہمیت بھی رکھتاہے۔ اختصارکی خاطربعض نکات کی طرف صرف اشارے کیے گئے ہیں تفصیلی بحث سے گریزکیا گیا ہے اوربعض میں تھوڑی تفصیل کردی گئی ہے۔مقالہ میں پیش کیے گئے نکات غوروفکرکے لیے پیش کیے جارہے ہیں،وہ مصنف کی کسی حتمی رائے کا اظہارنہیں کرتے۔
عالمی سطح پر:
سیاسیات: عصرحاضرمیں اسلامی اجتماعیات کے میدان میں سب سے نمایاں اورممتازترین نام مولانا سید موددوی علیہ الرحمہ کاہے۔
۱۔انہوں نے سیاسیات کے میدان میں بھی ایک تھیوری دی تھی کہ اسلامی سیاست نہ خالص تھیاکریسی ہے اورنہ خالص ڈیموکریسی۔ وہ ان دونوں کے بین بین کی چیز ہوگی۔(۱)مولانامعاصرسیاسیات پر گہری نظررکھتے تھے تاہم ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس اصطلاح کے بارے میں ان کا ذہن واضح نہ تھاکیونکہ ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ نام کی یااصطلاح کی کوئی اہمیت نہیں ”اس طرزکی حکومت کوموجودہ زمانہ کی اصطلاحوں میں آپ اسے سیکولرکہیے،ڈیموکریٹک یا تھیوکریٹک ہمیں کسی پراعتراض نہ ہوگا“۔(۲)ڈاکٹراسراراحمدجوعصرحاضرمیں نظام خلافت کے سب سے پرجوش داعی رہے ہیں،نے اِس پر مختصر اضافہ کیااوراس نظام کی کچھ عملی صورتیں تجویزکیں۔مگراس بنیاد پر مضبوط عمارت اٹھانے کی ضرورت ہے جس پرابھی کوئی توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔
2- جمہوریت میں اصل زورعام لوگوں کی شراکت اقتدارپر ہوتاہے اس موضوع پر زیادہ مسلمان اہل علم نے خواہ مخواہ ہی حاکمیت ِالٰہ کی بحث چھیڑدی ہے۔جوسراسرایک اضافی اورریلیٹو مسئلہ ہے۔ظاہرہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیتِ الٰہ کونظری طورپرتسلیم نہ کرنے کا کوئی سوال نہیں بحث عملی ہے۔البتہ غیرمسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیت الٰہ کا مطالبہ فضول ہوگا۔ پہلے توان کوایمان کی دعوت کا مخاطب بنایا جائے گا۔
۳۔ دارالاسلام اوردارالحرب کی بحثوں سے اسلامی فقہ کاذخیرہ بھراپڑاہے مگریہ اصطلاحات اپنے دورمیں
تھیں آج نہیں منطبق ہوتی
ہیں۔اب نئی اصطلاحات بنانے کی ضرورت ہے۔مثال کے طورپر مولانا وحیدالدین خاں دارالدعوۃ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یاعلامہ یوسف القرضاوی دارالعہد کی۔
4۔اسلامی فقہ میں غیرمسلم شہریوں کے لیے ذمی،مستامن وغیرہ کی اصطلاحیں رائج ہیں مگریہ شہریت کے موجودہ تصورات کے مطابق نہیں ہیں۔ جدید ذہن اس جبرکوتسلیم نہیں کرتاکہ شہریوں کومذہب کی بنیاد پر اول درجہ اوردوسرے درجہ کے شہریوں میں تقسیم کردیاجائے۔آج کی نیشن اسٹیٹ میں تمام شہریوں کودستوری طورپر یکساں حقوق حاصل ہوتے (4 ہیں ہاں یہ بات صحیح ہے کہ عملی صورت حال بہت سے ملکوں میں اس کے بالکل برعکس ہے(۔
سیکولرزم ایک فکری نظریہ اورعملی رویہ ہے جومذہب کوانسانی زندگی سے خارج کرتا یاکم ازکم اس کونجی زندگی تک محدودکرتاہے۔ ظاہرہے کہ مسلمان اہل علم میں کوئی بھی اس نظریہ کی تائید نہیں کرسکتا۔ مگرسیکولراسٹیٹ ریاست کے ایک عملی بندوبست کا سوال بھی ہے خاص کران ممالک میں جہاں مختلف مذہبی اکائیاں رہتی ہوں۔ مسلمان اہل فکرعام طورپر دونوں میں خلط ملط کردیتے ہیں اوراس پر گومگوکا شکارہیں۔ البتہ عملی صورت حال تضاد فکری کی غماض ہے وہ یوں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ سیکولراسٹیٹ کی بھی جوش وخروش سے مخالفت کرتے ہیں اورجہاں اقلیت میں ہیں وہاں وہ ا س کوباقی رکھناچاہتے ہیں اوراس کا دفاع وتحفظ کرتے ہیں۔مولاناسعیداحمداکبرآبادی،پروفیسرمشیرالحق،مولاناوحیدالدین خاں اورڈاکٹرعبدالحق انصاری سیکولراسٹیٹ کی تائیدکرتے ہیں اوراس کوہندوستان جیسے ملک میں نسبتاً ایک بہترنظام سیاست خیال کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو،وہ کسی مذہب میں مداخلت نہ کرے بلکہ سبھی مذاہب اس کی نظرمیں برابرہوں۔غامدی صاحب نیشن اسٹیٹ میں مطلقااس کی نفی کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب ہو۔ (۵)
۵۔حدود کے سلسلہ میں ارتدادکی سزاکا تصورجدید تعلیم یافتہ لوگوں کے نزدیک موجودہ زمانہ کی مذہبی آزادی اوراظہاررائے کی آزادی سے متصادم ہے اورقرآن کے صریح نص کے خلاف بھی۔ یقیناعلماء اسلام کی اکثریت اسی کی قائل رہی ہے مگراس بارے میں دوسری رائے بھی صدراول سے ہی موجودرہی ہے جوبوجوہ دبی رہی۔کیا آج کے دورمیں اس رائے کا اظہار موزوں نہ ہوگا؟اورکیااس پر کھلے بحث ومباحثہ کی ضرورت نہیں ہے؟ (6)
6۔ توہین رسالت کے قانون اوراس کے اطلاق کوعوامی ہاتھوں میں دینے کا تصورجدید ذہن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔اس پر گفتگوہونی چاہیے جس کا امکان مسلم معاشروں میں کم ہے۔پاکستان میں 1990 سے اب تک تقریبا1500لوگ اس قانون کے تحت گرفتارہوئے ہیں۔اورتقریبا700لوگوں کوماوراء عدالت عام لوگوں میں سے کسی نے اٹھ کرقتل کردیاہے۔جب کہ عدالت میں ان میں سے کسی پر بھی جرم ثابت نہ ہوسکاتھااورعدالتوں نے ان کوبری کردیاتھا۔(۷) پاکستان میں کسی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا جا سکتا ہے اگروہ مذہبی لوگوں کے رویے کو چیلنج کرے۔ پاکستان کے لبرل مفکرین اور دانشور اس روایت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنے پر ایک مذہبی انتہا پسند نے قتل کر دیا تھا۔جس کوآج مذہب پسندوں کی ایک کثیرتعداداپنا ہیرومانتی ہے۔
توہین مذہب کو جرم قرار دینے والے 71 ممالک میں سے 32 میں مسلمانوں کی اکثریت ہےلیکن مختلف ممالک میں اس سزاکا نفاذ مختلف ہے۔بعض ممالک نے ان سزاوں کوختم کردیاہے اوربعض نے ان پر عمل درامدکومنسوخ کردیاہے۔البتہ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانا یا بات کرنا مغربی ممالک میں ممنوع اورقابل سزاہے ۔ایران، پاکستان، افغانستان، برونائی، موریطانیہ اور سعودی عرب میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں توہین مذہب کے سب سے سخت قوانین اٹلی میں ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید ہے۔
ایک طرف تویہ موضوع بہت حساس ہے۔دوسری طرف یہ پہلوبھی سامنے رہے کہ کسی شاتم ِرسول کوقتل کرڈالنے سے اہانت کے کیسوں میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اسلاموفوبیاکی مہم کواس سے اورمسالہ مل جاتاہے۔ حالانکہ حنفی فقہ میں شاتم ِرسول کی سزامطلقاموت نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔(۸)لیکن برصغیرمیں امام ابن تیمیہ کی رائے کوعمومی طورپر قبول کرلیا گیا ہے اوراس پراجماع کا دعوی بھی کیاجاتا ہے۔اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان کے ظاہری مفہوم پر علما کی اکثریت اصرارکرتی ہے۔اورمسلم اکثریتی ممالک میں اس طرح کے کیسوں میں مسلمانوں کا عمومی ردعمل شاتم کوفوری طورپر کیفرکردارکوپہنچانے کا ہوتاہے جبکہ اقلیتی ممالک میں ان کا ردعمل زیادہ سے زیادہ احتجاجی مظاہروں تک محدودرہتاہے۔اس سے کھل کراختلاف کا اظہارمولاناوحیدالدین خاں،جاویداحمدغامدی صاحب اورعمار خاں ناصرکے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔(۹)بہت سے دوسرے علماء بھی یہی رائے رکھتے ہیں مگرعوامی ردعمل کے خوف سے وہ اس کا اظہارنہیں کرتے۔
مسلمان اس سلسلہ میں مغرب کی آزادیئ فکر (جوکہ ان کے لیے تقریباایک مذہب ہے اورخیراعلی سمجھی جاتی ہے)کی حساسیت کونہیں سمجھ پاتے اوراہل مغرب ناموس ِرسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتے۔اسی لیے ناگزیرہوگیا ہے کہ مسلمان اہل علم کے درمیان اس موضوع پر کھل کرگفتگوہواوراہل مغرب سے مکالمہ کی راہ کھولی جائے۔البتہ یہ بات ضرورہے کہ ہولوکاسٹ کے مسئلہ پر اہل مغرب نے بھی اظہارخیال پرپہرے بٹھا رکھے ہیں وہاں آزادیئ فکراوراظہاررائے خیراعلی کیوں نہیں ہے؟یہ سوال اٹھاناضروری ہے۔
اسی سے متعلق ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ نظری طورپر اہانت رسول کے قانون میں اللہ تعالیٰ،قرآن پاک،رسول اکرم ﷺ اورکسی بھی نبی کی اہانت شامل ہے اورمغرب میں حضرت عیسیٰ کولے کرخوب اہانت ہوتی ہے مگرمسلمان عملاًصرف رسول اللہ ﷺکی اہانت پر متشددردعمل کا اظہارکرتے ہیں؟اصولی اوراخلاقی طورپر ان کومطلقاً ہرنبی کی اہانت پر ردعمل کا اظہارکرناچاہیيے۔
۷۔جزیہ کا آج عملاکوئی بھی اسلامی ملک غیرمسلم شہریوں سے مطالبہ نہیں کرتا۔مگرعلماء کرام اورفقہااپنی تحریروں اورفتووں میں آج بھی اس پر زوردیتے ہیں اوریہی بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کے لیے لگا یا جاتا ہے۔بعض لوگ دوسری توجیہات بھی کرتے ہیں۔مولاناعنایت اللہ سبحانی نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ جزیہ نہ عام لوگوں پر لاگوہوگا اورنہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کا نشان ہے۔ان کا کہناہے کہ جزیہ مغلوب غیرمسلم ریاست سے غالب اسلامی ریاست لے گی (10) ہمارے خیال میں اس رائے پرغورکیا جانا چاہیے۔اورکیا مسلم حکومتوں کا تعامل بھی بطورنظیرکام آسکے گا؟
اصل میں جب اسلامی فقہ کی تدوین شروع ہوئی تو اس وقت عالم اسلام وقت کا سپرپاورتھا اورپوری اسلامی ریاست ایک خلیفہ کے ماتحت تھي یاکم ازکم نظری طورپر ایک خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کیاجا رہا تھا اورمسلم سلاطین اس کی وفاداری کا دم بھرتے تھے،ایسے ماحول میں فقہاء اسلام نے جوسیاسی اصول مدون کیے یامسلم مفکرین سیاست نے جو تحریریں چھوڑیں وہ زیادہ تر نظری باتوں پر مشتمل ہیں اورعصرحاضرکے نت نئے مسائل کا ان میں کوئی مرتب حل نہیں پایا جاتا ہے۔
مثلااس سوال کا مدون اسلامی فقہ یااسلامی سیاسی فکرجوجواب دیتی ہے کہ اگرکوئی غیرمسلم ریاست جومسلمانوں کے خلاف جارحیت کی مرتکب نہیں ہوتی تو اسلامی ریاست کے تعلقات اس کے ساتھ بھی محاربہ پرمبنی ہوں گے یا مسالمہ پر ،وہ بہت زیادہ قابل انطباق نہیں۔ کہ فقہاءکی اکثریت بظاہرپہلی رائے کی حامل ہے
جوموجودہ حالات میں قابل عمل نہیں۔(۱۱)
مستشرقین اوران کے ہم نوا بعض مسلمان اسکالروں کے نزدیک اسلامی فقہ تمام تر اسلام کی حکمرانی کی فضاء میں پروان چڑھی۔اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو اس صورت حال کے بارے میں تو تفصیلی رہنمائی دیتی ہے،جب وہ حاکم ہوں،لیکن جب مسلمان خود محکومی کی حالت میں ہوں یا محکومی سے مشابہ حالت ہویا تھوڑے بہت وہ خود بھی اقتدار میں شریک ہوں جیسے کہ ہندوستان میں ہے،تو ایسی صورت حال کے لیے مدون فقہ اسلامی رہنمائی دینے سے قاصر ہے۔فقہ الاقلیات کی بحث اسی عملی صورت حال کی پیداکردہ ہے۔(12)
اسی طرح اقتدارکی منتقلی کا کوئی میکینزم اسلامی فکرمیں نہیں ملتاہے۔جس کی وجہ سے تاریخ اسلام کا بیشترحصہ درباری سازشوں،خلیفہ وزراء اورامراء کی اقتدارکی رسہ کشیوں اوراس کے نتیجہ میں خون ریزی سے بھراہواہے۔علامہ یوسف القرضاوی نے خیال ظاہرکیاہے کہ اسلامی سیاسی فکرپر ابھی عصرحاضرکے تناظرمیں بہت کام کیا جا نا باقی ہے اوراس سلسلہ میں اجتہاد وتجدید فکرکی ضرورت ہے (13)اِن مسائل پر سوچتے ہوئے اورنئی آراء قائم کرنے کی ضرور ت اس لیے محسو س ہوتی ہے کہ آج ہم تمدنی وتہذیبی طورپراس دنیامیں رہ رہے ہیں جہاں مغرب کا غلبہ ہے۔اس کے برعکس دنیا بنانے کا ہم خواب تودیکھ سکتے ہیں لیکن ابھی واقع میں کوئی نئی اورالگ دنیا بنتی دکھائی نہیں دیتی۔
معاشرت:
خواتین کواسلامی فقہ میں قریب قریب مثل باندی بناکرپیش کیاگیاہے۔آج کے دورمیں تملیک وغیرہ کی تعبیرات پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔چہرہ کا پردہ کوئی دینی فریضہ نہیں ایک کلچرل مسئلہ ہے۔(14)
ایک مبہم حدیث:عن ابنی بکرہ لمابلغ رسول اللہ ﷺ ان اہل فارس ملکواعلیہم بنت کسری قال: لن یفلح قوم ولواامرہم امرأۃ، رواہ البخاری (وہ لوگ جنہوں نے اپنے معاملات کا ذمہ دارکسی عورت کوبنا دیا ہے کامیاب نہ ہوں گے (جوخبرہے یاانشاء یہ ہی طے نہیں)اورناقصات عقل ودین والی روایت کوبنیاد بنا کرعورت کوعلما ناقص العقل مانتے ہیں آج کا ذہن اِس کوتسلیم نہیں کرتا۔مذہبی حلقوں میں کہاجاتاہے کہ عورت کواعلی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اس کوتوگھرچلاناہے گھریلوکام کاج کی تربیت دینی چاہیے۔وہ محرم کے بغیرسفرنہیں کرسکتی۔اس کوکسی سیاسی،تعلیمی،معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح عورت کی امامت،عورت کی قیادت وغیرہ کے مسائل ہیں۔بغیرکسی قرآنی بنیادکے یہ مان لیاگیاہے کہ عورت کا دائرہ کارگھرہے اوراس سے باہروہ ضرورت کے وقت ہی نکلے گی۔عصررسالت میں ایساکوئی ظاہرہ نہیں تھا کہ عورت دربہ میں بند نظرآئے وہاں تومعاشرہ میں اس کی چلت پھرت ہے اورخاتون پوری طاقت کے ساتھ معاشرہ کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔ جنگ کے میدان میں نظرآتی ہے تعلیم وتعلم کے میدان میں اورمارکیٹ میں بھی اپناکرداراداکررہی ہے۔(15)آج جسمانی سے زیادہ عقلی صلاحتیوں کی ضروت ہوتی ہے کیونکہ انسانی زندگی کومشین کنٹرول کررہی ہے جس میں عورت مردسے پیچھے نہیں ہے ایسے میں مردوعورت میں تفریق کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اسلام میں عورتوں کے حقوق وذمہ داریوں کے سلسلہ میں جولٹریچرلکھاگیاہے اُس پر بڑااعتراض یہ ہے کہ
وہ ایک
پدرسری سوسائٹی کا بیانیہ ہے جس میں عورت کی حیثیت دوسرے درجہ کی ہے۔
اس سوال کوایڈریس کرنے کی ضروت ہے ۔(16)
جدیدکاسمولوجی کا چیلنج اوراسلام
موجودہ دورمیں علم کلام کی طرف پھرویسے ہی توجہ واعتناکی ضرورت ہے جیسے کہ ماضی کے ائمہ وعلمانے کی تھی،لیکن آج ہماری ساری توجہ فقہ کی طر ف ہوگئی ہے۔اس چیز کی اہمیت ہمارے سامنے اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم معاصردنیامیں مذہب اورسائنس کے تعامل پر غورکرتے ہیں۔ جدید کاسمولوجی جوسائنس وٹیکنالوجی نے تشکیل دی ہے اس نے مذہب کے روایتی موقف پر جوسوال کھڑے کردیے ہیں ان پر غورفکرکرتے ہوئے پہلااصولی مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھا یا رہا مسترد ہوچکا ہے۔اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کا مرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔اس ورلڈ ویومیں اسلام کے حامی اورمخالف دونوں ایک ہی پیچ پر تھے۔
آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو،ڈیکارتے،نیوٹن،ہبل اورآئن اسٹائن وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں۔ بلینیوں کہکشاؤں پر محیط اس کائنا ت میں خودزمین ایک نقطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ارتقاء اوراب بگ ہسٹری کے تصورات نے مذہب کے نظریہ تخلیق اورانسان کی خصوصیت کوختم کرکے رکھ دیاہے۔ بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصد ہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔ یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔مولاناوحیدالدین خاں کے ہاں اِس کے بارے میں غیرمرتب کام اورابتدائی درجہ کا کام موجودہے مگراس بہت آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کی طرف انجینئرسید سعادت اللہ حسینی نے توجہ دلائی ہے۔
(17)
مذہب انسان کی جوتاریخ اورکہانی بتاتاہے وہ پانچ چھ ہزارسال سے پیچھے نہیں جاتی جبکہ بگ بینگ اورنیچرل ارتقاء پر مبنی تاریخ عظیم بتاتی ہے کہ کائنا ت کی عمرقریبا13،ارب سال ہے۔اس کے مطابق ہماری زمین سات ارب سال پہلے بنی اوراس پر زندگی کا وجودپانی میں تقریباچارارب سال پہلے ہوا۔لائف نے مختلف ارتقائی منازل سے گزرکربلینوں سال پہلے حیوانی قالب اختیارکیا۔ارلی مین اورنیندرتھیل وجودمیں آتے ہیں لاکھوں سال کے گزرنے اورنیچرل سیلیکشن سے گزرتے ہوئے وہ ہنٹنگ گیدرنگ کے مرحلہ میں پہنچتا ہے۔ایک لاکھ نوے ہزارسال ہنٹنگ اورگیدرنگ کے مرحلہ میں رہنے کے بعدوہ آئس ایج،حجری زمانہ سے گزرکرزراعت کے دورمیں داخل ہوااورایک متمدن معاشرہ کی بنیاد پڑی۔ زراعت کے بعد موجودہ صنعتی معاشرہ وجودمیں آیا۔
تاریخ عظیم کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ بایولوجی کے اعتبارسے مردوعورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مختلف معاشروں میں ہم جوفرق ان دونوں میں دیکھتے آئے ہیں وہ اصل میں کلچرل مؤثرات کی وجہ سے ہے اس کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔ہوموسيپین کے مصنف کا کہناہے کہ:
“انسانی سماج میں مردکے وظائف ،عورت کے وظائف اوراس سے بھی آگے بڑھ کرانسانی جسم کے مختلف اعضاءکے بامقصدوظائف کا تصوراَن نیچلرل ہے۔وہ اصل میں مسیحی تھیولوجی سے آیاہے ورنہ بایولوجیکلی کسی چیز کا کوئی مقصداورہدف نہیں ہوتا۔مردقوام ہے اورعورت گھرکی ملکہ ہے وغیرہ تصورات اصل میں انسانی امیجنیشن کے ساختہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چیزوں کوامیجن کرتاہے ۔ چنانچہ یہ انسانی کلچر،ثقافت وتہذیب ،مذہب وروحانیت ،اخلاقی احساس وغیرہ یہ سب اس کی امیجنیشن کا نتیجہ ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں“ ۔( 18)
یہ کاسمولوجی کہتی ہے کہ تاریخ اندھاسفرکرتی ہے اوراس کائنات اوراس پر زندگی کا کوئی مقصد نہیں ،ایک دن یہ یونہی اندھے طورپرختم بھی ہوجائے گی ۔ ظاہرہے کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ اپنے اندرمذہب ،وجودباری تعالی وغیرہ کے کتنے بڑے چیلنج رکھتاہے اورہماری اس فتنہ سے مقابلہ کی تیاری کیسی ہونی چاہيے یہ کسی پر مخفی نہیں ہوناچاہيے۔
اورایک مسئلہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی کایہ ہے کہ آج جینیٹک انجئنرنگ کے ذریعہ یعنی انسانی جینوم کوکنٹرول کرنے کے پروگرواموں کے ذریعہ یہ کوشش کی جارہی کہ اپنے من پسندانسان پیداکیے جاسکیں۔ کلوننگ کا عمل جوشروع میںڈولی نامی بھیڑپر کیا گیا اوراس کا ہمزاد پیدا کیا گیا تھا اب بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اورپیڑپودوں،سبزیوں اوراناجوں سے گزرکراب حریم انسانی اس کی زدمیں آیا چاہتا ہے ۔جاپان میں مردوں کی آخری رسومات ایک روبوٹ انجام دے رہاہے ،جرمنی میں چرچ کے اندرایک روبوٹ پادری کلیسائی مذہبی فرائض انجام دے رہاہے یعنی AIآرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعہ روبوٹ اب محض مشینی آلا ت نہ رہ کرانسانی ذہن وشعورکے حامل بھی ہوں گے اوروہ دن دورنہیں جب ہمارے امام وموذن روبوٹ ہواکریں گے ۔ کبھی فلموں میں اورفکشن میں روبوٹک بیویوں کی بات آیا کرتی تھی مگراب تووہ سچائی بن کرانسانوں کے سامنے آنے والی ہے ۔ توسوال ہماری فقہ کے سامنے یہ ہوگا کہ روایتی معاشرتی احکام اِن نئے قسم کے اورانوکھی نوعیت کے انسانوں پر کس طرح لاگوہوں گے ؟کیا وہ سِرے سے شریعت کے مخاطب بھی رہ جائیں گے یانہیں؟یاان کے ليے کوئی اورہی فقہ ڈولپ کی جائے گی ؟(19)
یہ آٹومیشن ایج اب آچکاہے جس میں نانوٹیکنولوجی پر مبنی آلات وسائل انسانی زندگی کوگورن کریں گے۔مسئلہ صرف اس کے مظاہرکے عام لوگوں کے دسترس میں آنے کا ہے جس میں اب زیادہ دیرنہیں لگے گی۔(20)
انسانی زندگی میں مختلف جذبا ت کی بڑی اہمیت ہے اوربہت سے احکام بھی انہیں جذبات مثلاٰ محبت والفت،رحم ومہربانی،نفرت وکراہیت،غصہ وحسدوغیرہ کی بنیادپر وجودمیں آتے ہیں۔انسانی تہذیب ان کی بنیادپر ترقی کرتی ہے،سماجی رشتے ان سے بنتے بگڑتے ہیں۔اب ڈرگس اوردواؤں کے ذریعہ ان کوجذبات کوختم کرنے،ان کوکنٹرول کرنے یاان کوبدل دینے کی بات کی جارہی ہے۔حتی کہ ایک بڑاپروجیکٹ اس پر تحقیق کررہاہے کہ موت کاخاتمہ انسان کی زندگی سے کردیاجائے۔انسان کی زندگی کا دورانیہ بڑھادیا جائے وہ ہمیشہ جوان رہے اُسے کوئی مرض لاحق نہ ہووغیرہ۔اگرایساکسی بھی درجہ میں ہوجا تا ہے تو اس سے روایتی فقہی احکام پر کیااثرپڑے گا کیاان چیزوں کوتغییرِخلق اللہ کی قبیل سے سمجھاجائے گا یا نہیں؟ ہمارے علما گزشتہ سوسال سے بھی زیادہ عرصہ سے تصویرکے مسئلہ سے الجھے ہوئے ہیں کہ آیافوٹومیں کسی شیئی کی حقیقت خودآجاتی ہے یااس کا عکس آتاہے؟تصویراگرسرکٹی ہوتوجائزہوگی یانہیں؟ڈیجیٹل کیمرے سے لیے گئے فوٹوپر حدیث میں آئی وعیدکا اطلاق ہوگا یا نہیں وغیرہ ۔سوال یہ ہے کہ اب سائنس وٹیکنالوجی جس دنیاکوسامنے لارہے ہیں اس میں ہمارے یہ فقہی قواعدوضوابط کچھ کام دیں گے؟فی الحال کیتھولک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے اورکچھ اوراسباب سے بعض ملکوں میں سائنس کوکچھ پابند کیا گیا ہے اوراس کی تحقیقات پر کچھ قدغنیں عائدکی گئی ہیں مگرتابکے؟ جب یہ جن بوتل سے باہرآئے تونطشے نے تو”خدامرگیا ہے“کہ دیا تھا مسقتبل قریب کا انسان فرعون کی زبان میں کہے گا کہ ”میں پیدا کرتا ہوں اورمارتاہوں اس ليے میں ہی خداہوں“۔یعنی سائنس داں ہی اناربکم الاعلی کا نعرہ لگائے گا۔
یہ نئی کاسمولوجی اورجدید ٹیکنالوجی کے وہ پہلوہیں جوارتقا اورنیچرل ہسٹری کی بنیادپرمذہب کے بالمقابل کائنات کے آغازوارتقاء اورزندگی کی تخلیق کا نیا بیانیہ ہمارے سامنے لارہا ہے۔(21)یہ چیز اپنے اندرمذہب کے لیے کتنے خطرے لیے ہوئے ہے ہماری معروضات سے یہ بات کسی حدتک سامنے آجاتی ہے۔اب اہل مذہب کوسوچنا یہ ہے کہ اس خطرے سے مقابلہ کی کیا تیاری ان کے پاس ہے؟ آج کا الحاد سائنس کی بنیادپر کھڑاہے، ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنس دانوں کی اکثریت کے نزدیک ثابت شدہ ہے جبکہ مسلمان اہل دانش نے نظریہ ارتقاء کے علمی مطالعہ سے بہت کم اعتنا کیا ہے۔(۲۲)
ہندوستان:وطن عزیز ہندوستان میں انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ان کوگوناگوں مسائل ومشکلات کا سامناہے جس کا ایک پہلویہ ہے کہ آج کا پڑھا لکھا ہندوطبقہ اس بات پر بہت زوردیتا ہے کہ ہندودھرم چونکہ کسی کتاب کسی نبی اورکسی شریعہ (قانون)پرمبنی نہیں اس لیے اس میں بڑی رواداری،برداشت،تسامح،وسعت نظری اورفراخ دلی پائی جاتی ہے۔ یہ مذہب اپنی نہادمیں سیکولرہے اورمتضاد لوگوں اورچیزوں کواپنے میں سمونے اورساتھ لیکرچلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہاں تک کہ جوشخص خداکونہ مانتا ہواورمذہب میں یقین نہ رکھتا ہووہ ہندوہوسکتاہے۔ہندومذہب کا یہ بیانیہ سیٹ کرنے میں سیکولراورانتہاپسند ہندودونوں ایک ہی پیج پرہیں۔مشرکانہ مذاہب کا یہ تصورکہ وہ کسی
کسی ادارہ جاتی
مذہبی روایت پر قائم نہیں بہت سے مغربی ملحدوں کوبھی بہت بھاتا ہے اوروہ اس کے اس پہلوکی بڑی تعریف کرتے ہیں مثال کے طورپر مشہورمؤرخ اورماہرمستقبلیات یوال نواحراری نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے اورابراہمی مذاہب کے مقابلہ میں مشرکانہ مذاہب کوفوقیت دی ہے۔(23)یہ تصورجوطرح طرح کی پابندیوں سے عبارت مذہیبت سے بے زارلوگوں کی اکثریت کواپیل کرتاہے حقیقت میں گمراہ کن ہے اس لیے اس نکتہ پر علمی وتاریخی بحث اوراس کی تردید کی خاص ضرورت ہے۔
حواشی وحوالے:
(۱) ملاحظہ ہو:مولانا سیدابوالاعلی مودودی اسلامی ریاست،مرتبہ خورشیداحمداسلامک پبلیکیشنزپرائیویٹ لمیٹڈای ۳۱ شاہ عالم مارکیٹ لاہورص 502،
(۲)ایضا ص 379
)۳)ڈاکٹراسرار مختلف مروجہ نطامہائے سیاست اوران کی ظاہری صورتوں کے بارے میں کہتے ہیں: ”خلافت کا نظام صدارتی نظام سے قریب ترہے ……میں ہمیشہ کہتا آیاہوں کہ پارلیمانی اورصدارتی دونوں نظام جائزہیں،وحدانی unitary نظام وفاقی نظام اورکنفیڈرل سب جائز ہیں ……دنیامیں کئی سیاسی نظام چل رہے ہیں وحدانی صدارتی وفاقی صدارتی،وفاقی صدارتی (جیسے امریکہ میں ہے)کنفیڈرل صدارتی،پھرپارلمانی،وفاقی پارلیمانی اورکنفیڈرل پارلیمانی یہ چھ کے چھ جائزہیں“۔دیکھیں ڈاکٹراسراراحمد، پاکستان میں نظام خلافت،امکانات خدوخال اوراس کے قیام کاطریقہ کار صفحہ 36 مطبوعات تنظیم اسلامی پاکستان
(4)حقوق المواطنہ فی الاسلام میں ڈاکٹرراشدغنوشی نے اِس مبحث کوکافی اجاگرکیاہے اورتیونس میں اسے اختیارکرنے کی کوشش بھی کی ہے مگردوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں میں ابھی اس خیال کی پذیرائی نہیں ہوئی۔البتہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی بھی اسی رائے کے حامی ہیں۔ملاحظہ ہو:اسلامی فکرچندتوجہ طلب مسائل،شائع کردہ ہدایت پبلیکیشنز نئی دہلی،مولانامودودی (اسلامی ریاست)مولاناسیدجلال الدین عمری،(غیرمسلموں کے حقوق مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی،)عبدالکریم زیدان احکام اہل الذمہ فی الاسلام نیز وہبہ الزحیلی (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷)کی بحثوں سے جدیدذہن کی تشفی کا سامان نہیں ہوتا۔اس ضمن میں یوسف القرضاوی کی آراء (فقہ الجہاد)بہت سے پہلوؤں پر نیاراستہ کھولتی ہیں۔
(۵)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،ڈاکٹرعبدالحق انصاری،سیکولرازم،جمہوریت اورانتخابات صفحہ 6-7)
Secularism And Islam Musheerul haq مکتبہ جامعہ لمیٹڈ
مولاناوحیدالدین خاں،فکراسلامی گڈورڈنظام الدین ویسٹ نئی دہلی،جاویداحمدغامدی، اسلام اورریاست ایک جوابی بیانیہ مقامات طبع 2019المورد(ہند)
(6)مولانا عنایت اللہ سبحانی،تبدیلی ئمذہب اوراسلام،،ادارہ احیاء دین بلریاگنج،جنوری 2002طہٰ جابرالعلوانی اشکالیۃ الردۃ فی الاسلام،ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی اسلام اورتبدیلی مذہب کا مسئلہ بعض نئے مطالعات کی روشنی میں،اشراق لاہورستمبر2018
Blasphemy Laws Have Turned Muslim Countries into Killing Fields -7
Newageislam12 October 2021(https://www.newageislam.com/)
(8)تفصیل کے لیے دیکھیں:مولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور
(9)مولانا وحیدالدین خان شتم رسول کا مسئلہ گڈورڈ نظام الدین نئی دہلی،جاویداحمدغامدی میزان الموردفاؤنڈیشن لاہوراورمولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور
(10)ملاحظہ ہوان کی کتاب: جہاداورروح جہاداورجہاداورآیات جہادہدایت پبلشرزنئی دہلی)
(۱۱)اس پر تفصیلی گفتگوکے لیے دیکھیں:عبدالحمیداحمدابوسلیمان:
Towards An Islamic Theory of International Relations: New Directions for Islamic Methodology and Thought Washington: IIIT, 1993.
اوریوسف القرضاوی:فقہ الجہادالجزء الاول مکتبہ وہبہ
(12)ملاحظہ کریں:الشیخ عبداللہ بن محفوظ بن بیہ مشاہدمن المقاصدرمؤسسۃ الاسلام الیوم الطبعۃ الاولی 2010سعودی عربیہ اورنجات اللہ صدیقی،مقاصدشریعت مرکزی مکتبہ اسلامی نئی دہلی)یوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ
(13)ملاحظہ ہویوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ۔
(14)دیکھیں:تحریرالرسالہ فی عصرالرسالہ،عبدالحلیم ابوشقہ اوراس کی تلخیص (ڈاکٹرعبداللہ الکبیسی)کا اردوترجمہ شائع کردہ جوگائی بائی نئی دہلی نیز شیخ البانی کی کتاب:حجاب المرأۃ المسلمۃ
(۵۱)پروفیسر یسین مظہرصدیقی،رسول اکرم اورخواتین ایک سماجی مطالعہ اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی
(16)ضرورت ہے کہ اسلامی فیمنزم کی اسکالر داعیوں فاطمه مرنيسي, امینہ ودود،سعدیہ یعقوب وغیرہ پر فتوے وغیرہ لگانے کی بجائے ان کومصروف
کیاجائے اوران سے ڈائلاگ کیاجائے۔
(17)ملاحظہ کریں امیرجماعت اسلامی انجینئرسیدسعادت اللہ حسینی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016
(18) Yuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:122 Vintage Books London 2011
(19)ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی،کائنات کا آغازوارتقاء:قرآنی بیانات اورسائنسی حقائق میں تطبیق کی راہ(تین قسط)ماہنامہ اشراق (ہند)مئی،جون جولائی 2021 المورد ہند فاؤنڈیشن
(20)ملاحظہ ہو:سعادت اللہ حسینی امیرجماعت اسلامی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016اورابویحیٰ کا مقالہ چوتھا صنعتی انقلاب یاآٹومیشن ایج اشراق ستمبر2021
(21)ملاحظہ کریں:غطریف شہبازندوی،جدیدکاسمولوجی کا چیلنج اورفکراسلامی اشراق لاہوراکتوبر2019
(۲۲)دیکھیں: شعیب احمدملک /غطریف شہبازندوی اسلام اورنظریہ ارتقاء:ایک مختصرجائزہ تجدید شش ماہی جولائی دسمبر2019شمارہ ۲ جلد:۱انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈ سوشل تھاٹ شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی اورنظریہ ارتقاء کے تفصیلی مطالعہ کے لیے:ڈاکٹرمحمدرضوان ماہنامہ زندگی نو(جنوری 2021اوراس کے بعد کی متعدد اقساط)نئی دہلی
(23)۔ملاحظہ کریں Yuval Noah Harari Sapiens A brief History of Humankind p:239 Vintage Books London 2011
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ یونیورسٹی علی گڑھ
ای میل: mohammad.ghitreef@gmail.com
(نوٹ:مرکزجماعت اسلامی ہندکی تصنیفی اکیڈمی نے خاکسارکواسی موضوع پر اپنے ورکشاپ منعقدہ(27-28 نومبر2021)میں اظہارخیال کی دعوت دی تهي اسی ورکشاپ کے لیے یہ مقالہ لکھاگیا-