فضلاءدیوبند کی قرانی خدمات مصنف مفتی مشتاق تجاروی

      تبصرہ نگار: ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ٭

خلیق احمدنظامی مرکزبرائے مطالعات قرآنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ایک ایساادارہ ہے جس نے قرآن کریم کی خدمت کواپنانصب العین بنایاہے۔چنانچہ اس میں قرآنیات کے نصاب ،قرات وتجوید،اورقرآن کی تدریس کا عمل آغازہی سے جاری ہے۔جب سے مخدومی پروفیسرعبدالرحیم قدوائی ،جوخودبھی قرآن کے ایک مایہ نازمفسرمولاناعبدالماجددریابادی سے قرابت قریبہ رکھتے ہیں اورانگریزی میں قرآن کریم کے تفاسیروتراجم نیزمستشرقین کی نگارشات قرآنیہ کے تنقیدی مطالعات میں سنداوراتھارٹی ہیں،نے مرکز کی زمام کارسنبھالی ہے ۔مرکزمیں قرآنی مطالعات ،مباحثات اورتصنیف وتحقیق کے مبارک عمل کوزبردست مہمیز لگی ہے۔چنانچہ محترم قدوائی صاحب اوران کے رفقاءکارنے برصغیرکے فضلاءکی قرآنی خدمات کے تعارف کامنصوبہ بنایااوراس سلسلہ میں جماعت اسلامی کے خادمین قرآن (ڈاکٹرضیاءالدین ملک فلاحی)اورمدرستہ الاصلاح کے مفسرین کی قرآنی خدما ت(پروفسرابوسفیان اصلاحی )کے بعداب فضلاءدیوبندکی قرآنی خدمات ازڈاکٹرمفتی مشتاق تجاروی صاحب مرکزسے منظرعا م پرآئی ہے۔

تقریبا400صفحات اور95شخصیات کی قرآن سے متعلق خدمات ،ان کی تفاسیروتراجم اورعلوم القرآن کے تعارف وتذکرہ پر مشتمل یہ ارمغان علمی مفتی صاحب کی وسعت مطالعہ ،تحقیقی ذوق،اورمحنت شاقہ کی شاہدعدل ہے۔مصنف موصوف کے بقول صرف چندماہ کی قلیل مدت میں اتنامہتم بالشان کام انجام پاجاناان کی محنت شاقہ اورکام کی برق رفتاری کوعیاں کرتاہے۔جن اکابرعلما ومفسرین کا تذکرہ اس جلدمیں آیاہے ان میں سے چندمشاہیریہ ہیں: مولانا اخلاق حسین قاسمیؒ،مولانامحمدادریس کاندھلویؒ ،مولانااشرف علی تھانویؒ ،مولاناثناءاللہ امرتسریؒ ،مولاناسرفرازخاںصفدؒر،مفتی محمدشفیع دیوبندیؒ ، مولانا عبیداللہ سندھی ؒ،شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ،مولاناانورشاہ کشمیریؒ ،مولاناحسین احمدمدنیؒ ،مولاناسعیداحمداکبرآبادیؒ ،مولاناشمس الحق افغانی ؒ،ڈاکٹرمصطفی اعظمیؒ ،مولانا محمدمنظورنعمانی ؒ، مولانا شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ ، قار ی محمدطیب صاحبؒ،ابومصلح سہسرامیؒ ،مفتی سعیداحمدپالن پوریؒ ،مولاناڈاکٹرسعودعالم قاسمی صاحب وغیرہم ۔ یادرہے کہ مصنف نے علما ومفسرین کے تذکرہ میںتہجی ترتیب کوملحوظ رکھاہے۔

کتاب کوپانچ ابواب میں تقسیم کیاگیاہے ۔پہلاباب قرآن مجیدکے تراجم وتفاسیر(مکمل)دوسراباب قرآن مجیدکے تراجم وتفاسیر(نامکمل )اسی باب میں مصنف نے والدماجدعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھیؒ کی تفسیرمفتاح القرآن کا ذکرکیاہے ۔لیکن وہ تفسیرکی مکمل کتاب ہے ،چنداجزاءشائع ہوئے ہیں(باقی شائع ہوںگے )لہذانامکمل تفاسیرمیں اس کا تذکرہ درست نہیں۔تیسراباب عربی تفسیروںکی شروحات ،حاشیے اورتراجم پر مشتمل ہے۔چوتھاباب قرآنیات پر تصنیفات ہیں۔اس باب میں عصرحاضرکے معروف عالم ومحقق مولاناتقی عثمانی صاحب کی کتاب علوم القرآن کا تذکرہ ناگزیرہے۔وہ قرآن کے مترجم بھی ہیں اس لےے ان کے ترجمہ قرآن کا تعارف بھی آناچاہےےے تھا۔اسی طرح اردومیں لکھی گئی بالکل تازہ بتازہ تفسیرمحفل قرآن مولاناعتیق الرحمان سنبھلی قاسمی کا تذکرہ بھی چھوٹ گیاہے ۔اغلباکتاب کے دوسرے حصہ میں یہ تذکرے آئیں گے۔پانچواں باب فن قرات وتجویدپرہوئی تصنیفات پر ہے۔

کتاب کے مشمولات سے گمان ہوتاہے کہ دیوبندی مکتب فکرکی بیشترتفاسیراپنے علمی منھج میں یکسانیت  لیے ہوئے ہیں۔بس اسالیب بیان کا فرق ہے یاعلمی اورعوامی تفسیرکی لفظیات اوربیان کا ۔اورتفسیرکے دوسرے مکاتب فکرسے تعامل کا یہاں کم ہی گزرہے ۔اس سے صرف مولاناسندھی کی تفسیری کاوشیں مستثنی ہیں جن میں جدت پذیری اورعصری نظریات سے تاثرکی فضااچھی خاصی ہے گرچہ وہ ہرچیزمیں حوالہ شاہ ولی اللہ کوبناتے ہیں۔اسی طرح مفتی عزیزالرحمن صاحب بجنوری نے تقصیرات تفہیم لکھی ہے جس میں انہوںنے مولانامودودی کی تفہیم القرآن کی فروگزاشتوں پر تنقیدکی ہے۔ تاہم ممدوحی پروفیسرسعودعالم قاسمی کی قرآنی خدمات خوشگوارطورپر اس متعین پیٹرن سے الگ اورممتازہیں۔کہ انہوں نے عہدجدیدکے نمائندہ مفسرین کے تقابلی مطالعہ کی طر ح ڈالی ہے۔چنانچہ اپنی کتاب منہاج ترجمہ وتفسیر میں انہوں نے حسب ذیل پانچ ابواب قائم کیےہیں:

۱۔ترجمہ قرآن کے اسالیب اورشاہ ولی اللہ ،۲۔ابن تیمیہ اورشاہ ولی اللہ کے منہج تفسیرکا تقابلی مطالعہ۳۔شاہ ولی اللہ اورسرسیدکے تفسیری مناہج کا مطالعہ4۔ قرآنی معجزات ،شا ہ ولی اللہ اورمولانافراہی کی توجیہات ۵۔شاہ ولی اللہ اورمولاناآزادکی تفسیروں کا تقابلی مطالعہ ۔یوں اس کتاب کوتفسیرکے مناہج قدیم وجدیداوراسالیب کے مطالعہ میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔مولاناابومحمدمصلح سہسرامی جوخاصے گمنام سے ہیں کا تذکرہ اورفہم قرآن کوعام کرنے کی ان کی صداوں پر جگرمرادآبادی کا یہ شعرصادق آتاہے۔

        اللہ اگرتوفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں   عرفان ِمحبت عام توہے فیضان محبت عام نہیں

اسی طرح عوام کوقرآن فہمی کی طرف متوجہ کرنے کے  لیے مولانامحفو ظ الرحمن نامی کی کاوشوں کوبھی سراہاگیاہے۔

مولاناقاضی زین العابدین سجادمیرٹھیؒ کے علمی کارناموں میں ان کی عربی لغت بیان للسان اورقاموس القرآن کا ذکرکیاجاتاہے ۔رکارڈ میں لانے کے  لیے عرض ہے کہ گرچہ یہ دونوں کتابیں ان کے نام سے شائع ہوتی ہیں مگرحقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں کتابیں قاضی صاحب مرحوم نے والدماجدعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی سے ان کے عنفوان شباب میں تیارکرائی تھیں جواس وقت قاضی صاحب کے ادارہ دائرة المصنفین میں رفیق علمی تھے۔قاضی صاحب نے ا ن پرنظرثانی کرکے اپنے نام سے شائع کرایا۔لیکن دونوں کتابوں کے مقدمہ میں انہوں نے اس بات کا تذکرہ کردیاہے کہ ”میرے رفیق علمی مولانا شبیرا حمد ازہر نے ان کتابوں کی تالیف میں خصوصی اعانت کی ہے۔(مقدمہ قاموس القرآن ص14دارالاشاعت کراچی )(واقعہ یہ ہے کہ والدمرحوم نے خوداس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔مگرمیرے چچا مولانا ظہیرا حمد اطہر زبیدی (دہلی )وثوق سے ایساکہتے ہیں اورعلی گڑھ میں محترم ڈاکٹراحتشام احمدندوی صاحب نے بھی اس کی تصدیق فرمائی تھی۔واللہ اعلم )

مصنف نے زیادہ تراپنے آپ کومفسرین اوران کی تفسیری کاوشوں کے تعارف وتذکرہ تک محدودرکھاہے۔تاہم بعض تفسیروںوتراجم پر مختصرترین الفاظ میں تحسینی یاتنقیدی تبصرے بھی کہیں کہیں آئے ہیں۔خاکسارکا خیال تھاکہ اس پہلوکووہ تھوڑاساوسعت دیں اورتھوڑاتنقیدی جائزہ بھی لیں توکتاب کی علمی قیمت بڑھ جائے گی ۔مثا ل کے طورپراردومیں سب سے زیادہ مشہورومتدوال تفسیربیان القرآن (حضرت تھانویؒ )ہے جوبعدکی بہت سی تفسیری کاوشوں کی بھی بنیادبنی مثلاتفسیرمعارف القرآن وغیرہ۔مگربیان القرآ ن میں خاصی ضعیف احادیث واسرائیلی روایات پائی جاتی ہیں۔مولانااخلاق حسین قاسمی کی چھ کتابوں کا تذکرہ مصنف نے کیاہے ۔راقم کے پاس ان کی ایک کتاب :مولاناآزادکی قرآنی بصیرت کے نام سے ہے۔ممکن ہے کہ مصنف نے ترجمان القرآن کا تحقیقی جائزہ کے عنوان سے جس کتا ب کا تذکرہ کیاہے وہ یہی ہویادوسری کتاب ہو۔البتہ بعض کتابوں کے تعارف میں خاصی طول کلامی ہوگئی ہے مثلامولاناعبدالحمیدسواتی کی تفسیرمعالم الفرقان فی دروس القرآن پر بڑی دراز نفسی سے کام لیاگیاہے ۔حالانکہ وہ ایک عوامی تفسیرہے کوئی علمی وتحقیقی تفسیر نہیں ، اس کے الگ الگ مجلدات پر کلام کے بجائے مجموعی طورپر گفتگوکی جاسکتی تھی۔اسی طرح اوربھی کئی کتابوں کے ذکرمیں غیرضروری تفصیلات آئی ہیں جبکہ بعض اہم تفسیروںپر مختصرگفتگوہی آسکی ہے۔

اسی طرح حضرت انورشاہ کشمیریؒ اوران کی مشکلات القرآن کا تذکرہ بھی ذراسرسری ساہواہے۔وجہ یہ ہے کہ حضرت کشمیری نے خودتصنیفی کام بہت کم کیاہے۔تاہم ان کے تلامذ ہ کی تفسیروں اورکتابوں میں ان کے جوافادات آئے ہیں وہ ان کے تبحر،اجتہادی نظراورقرآنی تحقیقات میں ان کے بلندمرتبہ کے غماز ہیں،مثال کے طورپر ان کے شاگردرشیدمولاناحفظ الرحمان سیوہاروی نے اپنی قصص القرآن میں اپنے استادکے افادات کا جابجاتذکرہ کیاہے ۔ اس پر بھی کچھ بات آجاتی تواچھاتھا۔مفتی عبدالشکورترمذی کی تفسیرہدایة الحیران فی تفسیرالقرآن کا تذکرہ اس طورپر آیاہے کہ وہ مولاناغلام اللہ خان کی تفسیرجواہرالقرآن کے رد میں لکھی گئی ہے۔مولاناغلام اللہ خان شیخ القرآن کے نام سے ملقب ہیں اورمولانااحمدعلی لاہوری ؒسے مستفیدہوئے ہیں اورعلماءدیوبندمیں ہی شمارہوتے ہیں۔ان کی تفسیرپر ردکا تذکرہ کیاجائے توضروری تھاکہ مولاناغلام اللہ خان کی تفسیرکا تعارف بھی کرایاجاتاتاکہ قاری دونوں بزرگوں اوران کے کام سے واقف ہو۔

مفسرمولاناطاہرقاسمی نے اپنی تفسیرتقریرالقرآن کے تعار ف میں لکھاہے کہ ”تفسیروں کی اکثریت کی رفتاریہ ہے کہ یااقوال مختلفہ کا مجموعہ ہیں یاغیرمتعلق امورکا گہوارہ “(ملاحظہ ہوزیرتبصرہ کتاب کا صفحہ 231)اب سوال یہ ہے کہ اس قول کے مدنظرفضلائے دیوبندکی تفاسیرپر بھی یہ رمارک صادق آتاہے یامجموعی طورپر ایساکہنامحل نظرہے ۔مصنف کواس پر کچھ فرماناچاہےے تھا۔

کتاب ہراعتبارسے قابل مطالعہ ہے اورہرباذوق قاری کے پاس ہونی چاہیے،مگریہ دیکھ کربڑی حیرانی ہوئی کہ علی گڑھ کی علمی روایات کے برعکس کتاب میںاشاریہ توچھوڑیے حواشی ومراجع اوراسی طرح کتابیات کا التزام بھی نہیں کیاگیاہے۔ہاںمتن کے بیچ میں حوالے ضرورآئے ہیں۔ہمارے خیال میں یہ ایک علمی نقص ہے ۔اس کی وجہ بھی غالباًیہی رہی کہ کتاب بعجلت تمام لکھی گئی ہے آئندہ ایڈیشن میں اس کی تلافی ضرورکی جائے ۔بعض مقامات پر پروف کی غلطیاں بھی نظرآئیں۔امیدہے کہ آئندہ ان کودرست کرلیاجائے گا۔

کتاب اچھے گیٹ اپ کے ساتھ براون پبلیکیشنر نئی دہلی اورشمشادمارکیٹ علی گڑھ سے دستیاب ہے ۔اوراس کی قیمت (مجلدکی )600روپے رکھی گئی ہے،جواردوکتابوں کی عمومی قیمت کے حساب سے کچھ زیادہ ہے۔فضلاءدیوبندکے بعدامیدہے کہ مرکزمطالعات قرآن اب دارالعلوم ندوة العلماءلکھنواوردوسرے مکاتب فکرکی قرآنی خدمات کومنظرعام پرلانے کی سعی کرے گا۔

٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت برائے مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x