تحقیق مزید بسلسلہ حدیث غدیرخم

        ffosi.org  تسلسل کے لیے )        تحقیق مزید بسلسلہ حدیث غدیرخم

           (پر شائع کردہ  گزشتہ مضمون حدیث غدیرخم کی تحقیق،علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ملاحظہ کریں

                                                    ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی 

حدیث غدیرخم  ’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘کچھ اوربھی طریقوں سے مروی ہے جن میں حضرت سعدبن ابی وقاص کا طریق بھی ہے۔ اس پر گفتگوکرتے ہوئے علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی نے لکھاہے:”حضرت سعد سے عبدالرحمن بن سابط اورعبداللہ بن رقیم کنانی نے اس کی روایت کی ہے۔عبدالرحمن بن سابط کی روایت ابن ماجہ نے تخریج کی ہے: قال حدثناعلی بن محمد ثنا ابومعاویہ ثنا موسی بن مسلم عن ابن سابط وھوعبدالرحمن عن سعدبن ابی وقاص قال قدم معاویہ فی بعض حجاتہ فدخل علیہ سعد فذکرواعلیاً فنال منہ فغضب سعد وقال تقول ھذاالرجل سمعت رسول اللہ ﷺ یقول من کنت مولاہ فعلی مولاہ“وسمعتہ یقول انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الاانہ لانبی بعدی وسمعتہ یقول لاعطین الرایۃ الیوم رجلاً یحب اللہ ورسولہ (سنن ابن ماجہ ص12آخرمناقب علی،طبع الہند)یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ عبدالرحمن بن سابط نے حضرت سعد سے کوئی حدیث نہیں سنی (جیساکہ یحی بن معین کہتے ہیں تہذیب التہذیب الجزء الثانی ص 509 )اورظاہرہے کہ اس نے اُس شخص کا ذکرنہیں کیاجس یہ بات سنی تھی۔اس میں حضرت معاویہ وسعدکا قصہ اورحضرت علی کے متعلق ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“دونوں باتیں غلط بلکہ کذب محض ہیں۔ تاہم اتنی بات دوسری صحیح روایات سے ثابت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر جب حضورنے سیدناعلی رضی اللہ عنہ کومدینہ چھوڑاتھااوروہ اس پر دلگیرہوئے تھے توآپ نے ان کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا تھا: انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الاانہ لانبی بعدی۔عبداللہ بن رقیم کنانی کی روایت ابن سعدنے نقل کی ہے۔(انتھی کلام الشیخ شبیراحمدازہرمیرٹھی ماخوذ من درر الغواص شرح مسند سعد بن ابی وقاص  545مسودہ قلمی)

اس حدیث کا ایک طریق اورہے جومسنداحمدمیں آیا ہے: وہ یہ ہے: حدثنا یحیٰ بن آدم،حدثنا حنش بن الحارث بن لقیط النخعی الاشجعی،عن رباح بن الحارث،قال:جاء رھط الی علی بالرحبۃ، فقالوا:السلام علیک یا مولانا قال:کیف اکون مولاکم وانتم قوم عرب؟ قالوا سمعنا رسول اللہ ﷺ یوم غدیرخم یقول:”من کنت مولاہ فان ھذامولاہ“قال ریاح:فلما مضوا تبعتہم فسائلت من ھولاء؟قالوا:نفرمن الانصارفیہم ابوایوب الانصاری۔(مسنداحمدحدیث نمبر23564)(مسندمیں اوربھی جگہوں پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے)

تراجم: حنش بن الحارث بن لقیط النخعی الکوفی:ائمہ رجال اس کے بارے میں کہتے ہیں:ما بہ بأس،قلیل الحدیث ثقۃ تہذیب التہذیب الجزء الاول ص503)یہ الفاظ خود دلالت کرتے ہیں کہ کام چلاؤراوی ہے۔

ریاح بن الحارث ابوالمثنی النخعی ثقۃ، تہذیب التہذیب الجزء الاول ص 617 عجلی اورابن حبان نے بھی ان کوثقات میں ذکرکیاہے۔

اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں مگراس میں دو باتیں نوٹ کرنے کی ہیں۔ایک تواس حدیث کی روسے غیرعربوں کے مولاحضرت علی ہوسکتے ہیں عربوں کے نہیں۔ دوسرے خوداسی راوی یعنی ریاح کے ذریعہ سے یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی آئی ہے اسے بھی ملاحظہ کرلیں:

حدثنا شریک عن حنش بن الحارث،عن ریاح بن الحارث،قال بیناعلی جالسا فی الرحبۃ اذجاء رجل علیہ اثرسفرفقال:السلام علیک یامولائی،فقال من ھذا فقالواھذا ابوایوب الانصاری فقال انی سمعت رسول اللہ ﷺیقول من کنت مولاہ فعلی مولاہ،کتاب الفضائل،فضائل علی،حدیث نمبر32073

طریق ایک ہے راوی بھی ایک ہے مگرمسند احمداورمصنف ابن شیبہ دونوں کی روایت میں واضح فرق ہے کہ پہلے میں راوی ریاح یارباح کہتے ہیں کہ ایک جماعت رحبہ (جامع کوفہ کے صحن)میں حضرت علی کے پاس آئی اوراس نے یامولاناکہا جب یہ لوگ واپس ہوئے تورباح ان کے پیچھے گئے اوران کے بارے میں معلومات کیں تولوگوں نے بتایا کہ یہ انصاری لوگ ہیں اوران میں ابوایوب انصاری بھی ہیں۔ دوسری حدیث میں یہی راوی کہتاہے کہ:حضرت علی رحبہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آئے جن پر سفرکے اثرات تھے اورانہوں نے حضرت علی کوسلام کرتے ہوئے یامولایَ کہا تھا۔ راوی نے پوچھا یہ کون ہیں لوگوں نے بتایا کہ یہ ابوایوب انصاری ہیں پھرابوایوب انصاری نے ”من کنت مولاہ“ والی حدیث سنائی۔ اس سے واضح ہے کہ راوی ریاح کواصل بات یاد نہ تھی کبھی کچھ کہ دیا کبھی کچھ۔ اس لیے اس روایت پر سند صحیح ہونے کے باوجوداعتبارنہیں کیاجاسکتا۔

یہ صرف ہماراہی خیال نہیں ہے بلکہ امام احمد نے اس روایت کوسن کرخود یہی فرما یا تھا کہ:الکوفیون یجیؤن بالعجائب: پوری بات المنتخب من العلل للخلال میں یوں بیان کی گئی ہے:

قال:وحدثناابوعبداللہ بحدیث جسر،عن رباح،عن ابی ایوب انہ جاء الی علی ومعہ رھط من الانصارفقالوا:السلام علیک یامولانا،فلمافرغ منہ،قال:الکوفیون یجیؤن بالعجائب

اس کا مفہوم یہ ہے کہ اثرم نے بیان کیاکہ ابوعبداللہ (یعنی امام احمد)نے جسرعن رباح عن ابی ایوب کے طریق سے یہ حدیث بیان کی کہ ابوایو ب انصاریوں کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت علی کے پاس آئے اورانہوں نے ان کوسلام کرکے یامولانا کہا تھا۔جب وہ یہ حدیث سناکرفارغ ہوئے توامام احمد نے کہا کہ:کوفی لوگ عجیب وغریب روایتیں بیان کیا کرتے ہیں۔

اب سوال ہوگاکہ جب امام احمد خوداس حدیث کومعلول سمجھتے ہیں تومسند میں اس کوجگہ کیوں د ی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسنداحمد تمام کی تمام امام احمدکی تصنیف نہیں ہے بلکہ اس میں ان کے فرزندعبداللہ کی زیادات بھی ہیں جومسندعلی میں بہت زیادہ ہیں اوران میں ضعیف حدیث بہت ہیں اوراس کے علاوہ مسندکے راوی قطیعی کی زیادات بھی ہیں جن کی اکثریت کذب وموضوعات پر مشتمل ہے۔(ملاحظہ ہوابن تیمیہ کا تبصرہ مسندپر منہاج السنہ جلدخامس ص 23)

یہ صحیح ہے کہ بہت سے ائمہ حدیث ورجال وتاریخ نے اس حدیث کوقبول کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن کثیرنے البدایۃ والنہایۃ میں (جلد سابع طبع مرکزالبحوث والدراسات العربیہ والاسلامیہ بدارہجربتحقیق دکتورعبداللہ بن محسن الترکی)اس کے بہت سے طرق جمع کردیے ہیں۔ان میں سے بہت سے طریقوں پر کلام کیااوران کواسانید واھیۃ قراردیاہے اوربعض طرق کوقبول کیاہے۔ابن تیمیہ نے بھی قبول کیاہے۔اورعصرحاضرمیں شیخ البانی اورشیخ شعیب الارنوؤط وغیرہ نے بھی۔حافظ ذہبی نے بھی ایک رسالہ میں ان کوجمع کیاہے،اوراس کی وجہ کثرت طرق واسانیدہے۔کسی روایت کے کثرت طرق دیکھ کرتوبعض اوقات جہابذہ محدثین بھی غلطی کربیٹھتے ہیں چنانچہ حافظ ابن حجرنے سورۃ نجم کی آیت کریمہ افرائتم اللات والعزی ومناۃ الثالۃ الاخری کے ضمن میں وان شفاعتھن لترتجی ٰ والی منکروموضوع روایت کے بارے میں بھی لکھا ہے:وکثرۃ الطرق تدل علی ان للقصۃ اصلاً (فتح الباری  ۸تفسیرسورۃ الحج) جبکہ قاضی عیاض اورقاضی ابوبکرابن العربی وغیرہم نے اس روایت پر شدید تنقیدیں کی ہیں۔               

لیکن متقدمین میں بھی بہت سے ائمہ نے کثرت طرق کے باوجود”من کنت مولاہ والی حدیث“کومنکرقراردیا ہے مثال کے طورپر مشہورحنفی امام جمال الدین زیلعی حنفی (متوفی 762)لکھتے ہیں: کتنی ہی روایات ہیں جن کے راوی بہت ہیں اوران کے طرق متعدد ہیں مگرحدیثیں ضعیف ہیں جیسے حدیث طیر،حدیث افطرالحاجم اورحدیث ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الھدایۃ ج ۱ص 360ماضی قریب کے معروف عالم دین ڈاکٹرعلامہ خالدمحمودنے بھی اس حدیث کوقبول نہیں کیاہے اورحوالہ میں زیلعی اورابن تیمیہ ہی کا قول نقل کیاہے:

اس روایت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:یہ روایت صحیح بخاری اورمسلم میں موجودنہیں۔ شیعہ حضرات محض پراپیگنڈے کے لیے اوراس روایت کے ضعف پر پردہ ڈالنے کے لیے صحیح بخاری اورصحیح مسلم کانام لیتے ہیں۔ورنہ حق یہ ہے کہ یہ روایت صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ہوناتودرکناریہ روایت کسی اورکتاب میں بھی سندصحیح اورثقہ راویوں سے مردی نہیں۔رئیس المحدثین حافظ زیلعی (متوفی  762) اپنی مایہ ناز کتاب نصب الرایہ میں بسم اللہ بالجہرکی بحث میں لکھتے ہیں:واحادیث الجہروان کثرت رواتھا لکنھا کلہا ضعیفۃ وکم من حدیث کثرت رواتہ وتعددت طرقہ وھوحدیث ضعیف کحدیث الطیروحدیث الحاجم والحمجوم وحدیث ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“قدلایزیدکثرۃ الطرق الاضعفاً۔یعنی نمازمیں بسم اللہ جہرسے پڑھنے کی روایات اگرچہ بہت ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔اوریہ اسی طرح ہے جیسے کہ حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ“بلکہ بعض اوقات کثرت طرق بجائے اس کے کہ نقصان کوجبرکرے اورپوراکردے اس ضعف کواوربڑھادیتاہے۔حافظ ابن تیمیہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں:فلایصح من طریق الثقات اصلاً“یعنی یہ روایت ثقہ اورمعتبرطریقے سے ہرگزثابت نہیں۔واللہ اعلم کتبہ خالدمحمودعفااللہ عنہ (ص 148)عبقات دارالمعارف الفضل مارکیٹ اردوبازارلاہور

اتناہی نہیں وہ تویہ بھی لکھتے ہیں:”اورجتنی بھی سندیں جمع کرتے جائیں یہ حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کسی بھی سندسے درجہ ئصحت کونہیں پہنچتی۔گوعقیدت کے جوش میں بعض لوگوں نے اس کے متواترہونے کا دعوای کیاہے۔بلکہ اس کی سندیں جتنی بڑھتی جائیں گی اس کا ضعف اورنمایاں ہوتاجائے گا“۔علامہ ڈاکٹرخالدمحمود،آثارالحدیث جلددوم ص 435شائع کردہ  دارالمعارف الفضل مارکیٹ اردوبازارلاہور)

اس حدیث کے کچھ اوربھی طرق ہیں جن پر آئندہ گفتگوہوگی ان شاء اللہ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x