حدیث غدیرخم”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“کی تحقیق

حدیث نمبر86 (مسنداحمد)

از علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی

حدثناابن نمیرثناعبدالملک عن ابی عبدالرحیم الکندی عن زاذان بن عمرقال سمعت علیافی الرحبۃ وهوینشدالناس من شھدرسول اللہ ﷺ یوم غدیرخم وھویقول ماقال فقام ثلاثۃ عشررجلاً فشہدوا انہم سمعوارسول اللہ ﷺ وھویقول ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“

 (قلت حدیث موضوع)

زاذان بن عمرسے مروی ہے کہ اس نے بیان کیا کہ میں نے حضرت علی ؓسے مقام رحبہ میں سناجب کہ وہ لوگوں کواللہ کا واسطہ دیکرمعلوم کررہے تھے کہ تم میں سے کون ہے جس نے غدیرخم کے دن رسول اللہ ﷺ سے وہ بات سنی ہے جوآپ نے فرمائی۔ یہ سن کرتیرہ مردوں نے اٹھ کرگواہی دی کہ ہم نے حضورﷺ سے یہ بات سنی ہے۔ آپ فرمارہے تھے کہ میں جس شخص کا مَولی ہوتوعلی اس کا مولی ہے۔

تراجم

عبدالملک:عبدالملک نام کے بہت سے راوی ہیں۔ابن نمیرنے جس عبدالملک سے سناوہ اغلباًعبدالملک بن سلع الہمذانی الکوفی ہے۔جس کے بارے میں ابن حبان نے کہاہے:کان یخطئی تہذیب ج ۲ ص 613

ابوعبدالرحیم الکندی:کا ترجمہ دستیاب نہیں ہوا۔

زاذان:ابوعبداللہ ابوعمرالکندی مولاہم الکوفی الضریرالبزار:حکم نے کہا:کان کثیرالکلام ابن عدی:احادیثہ لابأس بہا اذاروی عن ثقۃ ابن حبان کان یخطی کثیراً (تہذیب ج ۱ ص619

طریق ثانی

حدثنامحمدبن عبداللہ ثناالربیع یعنی ابن ابی صالح الاسلمی حدثنی زیاد بن ابی زیاد سمعت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ینشد الناس فقال انشداللہ رجلاً مسلما سمع رسول اللہ یقول یوم غدیرخم ما قال فقام اثناعشربدریا فشہدوا(ص ۸۸)

(حدیث موضوع)

زیاد بنی ابی زیاد کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی سے سناجب کہ وہ لوگوں سے دریافت کرتے ہوئے کہ رہے تھے کہ میں اس بات پراللہ کا واسطہ دیتا ہوں جس نے غدیرخم کے دن (میرے متعلق)آپ کا ارشاد سنا ہو۔(میں اللہ کا واسطہ دیکرکہتاہوں کہ وہ کھڑے ہوکرسب کواس سے آگاہ کرے۔ پس بارہ بدر ی کھڑے ہوئے اورانہوں نے اٹھ کرگواہی دی۔

تراجم: ربیع بن ابی صالح الاسلمی مولاہم البکری روی عن زیاد بن ابی زیاد ومدرک بن ابی زیادوعنہ مروان بن معاویہ وعبداللہ بن داؤدوابونعیم۔ وثقہ ابن معین وقال ابوحاتم یکتب حدیثہ وذکرہ ابن حبان فی الثقات۔وقال: البکر ی مولی اسلم فیقال البکری الاسلمی بطریق الجمع بین النسبتین (تعجیل المنفعۃ ص 125)مگراس حدیث میں ربیع بن ابی صالح کا تلمیذ اورامام احمدکا شیخ محمدبن عبیداللہ کون ہے؟اس کی تعیین میسرنہیں آسکی۔ امام احمدکے اساتذہ وشیوخ میں تین شخص اس نام سے معروف ہیں محمد بن عبداللہ بن الزبیرابواحمد الزبیری،محمد بن عبداللہ بن عبدالاعلی الکوفی جن کوابن کناسہ کہاجاتاہے۔ محمدبن عبداللہ ابن المثنی بن عبداللہ بن انس لانصاری۔اس اسنادمیں ان تینوں میں سے کوئی شخص مراد ہے اوراغلب یہ ہے کہ یہ ابواحمدزبیری ہے۔اورزیادبن ابی زیادمجہول ہے،خداجانے کون تھا۔ یہ زیادبن ابی زیادالمخزومی (نسبت ولاء)نہیں ہے اورنہ ہی زیادبن ابی زیاد جصاص واسطی ہے۔(حالانکہ یہ واسطی بھی ضعیف ہے تہذیب ج ۱ ص 647)

طریق ثالث:قال عبداللہ حدثناعلی بن حکیم الاودی انبأنا شریک عن ابی اسحاق عن سعید بن وہب وعن زید بن یثیع قالا نشد علی الناس فی الرحبہ من سمع رسول اللہ ﷺ یقول یوم غدیرخم الاقام۔ قال فقا م من قبل سعید ستۃ من قبل زید ستۃ فشہدوا نہم سمعوارسول اللہ ﷺ یقول لعلی یوم غدیرخم الیس اللہ اولی بالمؤمنین؟ قالوا بلی۔ قال اللہم من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ ص 118)

 (موضوع والآفۃ من شریک)

قاضی شریک نخعی نے ابواسحاق سبیعی سے اورابواسحاق نے سعید بن وہب ہمدانی اورزید بن یثیع سے روایت کی ہے کہ ان دونوں نے بیان کیا کہ مقام رحبہ میں حضرت علی ؓ نے لوگوں سے خدا کا واسطہ دیکرپوچھا کہ جس نے بھی غدیرخم کے دن حضورﷺ کا ارشاد سنا ہواٹھ کربیان کرے۔ ابواسحاق کا بیان ہے کہ یہ سن کرسعید بن وہب کی طرف سے چھ صحابہ اورزید بن یثیع کی طر ف سے چھ صحابہ نے اٹھ کراقرارکیا کہ ہم نے حضورﷺ سے سنا ہے آپ غدیرخم کے متعلق کہ رہے تھے، لوگو بتاؤ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:النبی اولی بالمومنین من انفسہم (یعنی نبی مؤمنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتاہے)حاضرین نے عرض کیاکیوں نہیں بے شک یہ اللہ کا ارشاد ہے۔ تب آپ نے فرمایا خدایا دوستی کراس شخص سے جوعلی سے دوستی کرے اوردشمنی کراس سے جوعلی سے دشمنی کرے۔

تراجم: سعید بن وہب الہمدانی الخیوانی (بفتح خائے معجمہ)الکوفی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاص لوگوں میں سے تھا۔ سایہ کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اس لیے لوگ اسے القراد یعنی چنچڑی کہنے لگے تھے۔ قال ابن سعدعرف بالقراد للزومہ علی بن ابی طالب۔ کہتے ہیں کہ اس شخص نے زمانہ نبوی بھی پا یا تھا اگرچہ شرف صحبت سے محروم رہا۔ آنحضورﷺ نے جب حضرت معاذبن جبل کویمن بھیجا تھا تووہاں سعید بن وہب نے حضرت معاذ سے کچھ حدیثیں سنی تھیں۔ سعید نے آنحضورﷺ سے مرسلاً اورحضرات علی وابن مسعود وسلمان فارسی وابومسعود انصاری وحذیفۃ بن الیمان وخباب بن الارث وام سلمہ رضی اللہ عنہا وعنہم سے حدیثیں روایت کی ہیں۔اوران سے ان کے فرزند عبدالرحمن نے اورابواسحاق سبیعی وعمارہ بن عمیروسری بن اسماعیل نے۔ ابن معین وعجلی وابن نمیرنے اس کی توثیق کی ہے۔ابن حبان نے ثقات میں ذکرکیا ہے اوربتا یا ہے کہ سعید بن ابی خیرہ بھی اسے ہی کہتے ہیں۔ سنہ 75یا76میں وفات پائی (قال ابن ابی عاصم مات سنۃ خمس وقال عمروبن علی مات سنۃ ست وسبعین (تہذیب التہذیب ج ۲ص  49 مؤسسة الرسالة)اورالاصابہ میں ہے: قال ابن حبان هوالذی یقال لہ سعید بن ابی حرۃ معلوم نہیں صحیح حرہ ہے یا خیرہ نیزاس میں ہے مات سنۃ خمس اوست وتسعین (الاصابۃ ج ۲ ص 113)خداجانے تسعین صحیح ہے یا سبعین۔

تحقیق:پیش نظرمطبوعہ مسند میں اس کا متن یہ ہی ہے جوہم نے درج کیاہے۔ لیکن اغلب بلکہ یقینااس میں کتابت کی غلطی سے بے جا سقوط ہوگیا ہے۔صحیح عبارت یہ ہے: الیس اللہ قال النبی اولی بالمومنین من انفسہم،قالوابلی“ظاہرہے کہ اس کے بغیرمطلب درست نہیں ہوتا اسی لیے ہم نے ترجمہ میں اسے ہی ملحوظ رکھاہے۔

طریق رابع: قال عبداللہ حدثناعلی بن حکیم انبأنا شریک عن ابی اسحاق عن عمروذی مربمثل حدیث ابی اسحاق یعنی عن سعید وزید ۔وزاد فیہ وانصرمن نصرہ واخذل من خذلہ ص 118)

موضوع والآفۃ من شریک

قاضی شریک کابیان ہے کہ ابواسحاق نے عمروذومرسے بھی یہ حدیث روایت کی جو سعید بن وہب وزید بن یثیع سے روایت کی گئی۔ البتہ عمروذومرنے یہ اضافہ کیاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اے اللہ تواس کی مددکرجوعلی کی مددکرے اوراس کوشکست دے توعلی کی مدد نہ کرے۔

یہ اضافہ جوعمروذومرکی روایت میں ہے یا توشریک کا ساختہ پرداختہ ہے یاکسی اورشخص سے شریک نے اسے سن لیا ہوگا اوراگرحضورﷺ نے علی کے حق میں یہ دعا فرمائی ہوتی توعلی کے مقابلہ میں معاویہ کیسے کامیاب ہوسکتے تھے۔

طریق خامس:اورابن عقدہ نے بھی ایک روایت سعد بن طالب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ اس کا راوی سعد بن طالب اوراس کا تلمیذ موسیٰ بن نضردونوں ہی مجہول ہیں۔ اغلب یہ ہے کہ ابن عقدہ نے ہی اس کووضع کیاتھا۔ ابن عقدہ کثیرالعلم مگرکٹراوردروغ باف رافضی تھا۔ یہ شخص حدیثیں گھڑگھڑکرکوفہ کے شیوخ کودیدیتا اورجب وہ اس کی روایت کرتے توان کی سندوں سے اپنی تالیفات میں ان کا ذکرکرتا۔

طریق سادس: (۱)قال عبداللہ حدثناعبیداللہ بن عمرالقواریری ثنا یونس بن ارقم ثنا یزید بن ابی زیادعن عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ قال شهدت علیارضی اللہ اللہ عنہ فی الرحبۃ ینشد الناس،انشداللہ من سمع رسول اللہ ﷺ یقول یوم غدیرخم ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“لما قام فشھد قال عبدالرحمن فقام اثناعشربدریا کانی انظرالی احدهم فقالوا نشهد اناسمعنا رسول اللہ ﷺ یقول یوم غدیرخم ”الست اولی بالمؤمنین من انفسہم وازواجی امہاتہم فقلنا بلی یارسول اللہ قال فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ اللہم وال من والاہ وعاد من عاداہ“ص 119)

حدیث موضوع

یونس بن ارقم کا بیان ہے کہ ہم سے یزیدبن ابی زیادکوفی نے بیان کیاکہ عبدالرحمن نے ذکرکیاکہ میں اس وقت مقام رحبہ میں موجودتھاجب علی ؓ لوگوں کواللہ کی قسم دے رہے تھے کہ جس شخص نے بھی رسول اللہﷺ کوغدیرخم میں من کنت مولاہ“کہتے سناہووہ اٹھ کراقرارکرے۔عبدالرحمن بن ابی لیلی ٰ کا بیا ن ہے کہ پس بارہ بدری صحابہ نے اٹھ کرگواہی دی گویاکہ میں ان میں سے ایک ایک کی طرف دیکھ رہاہوں (یعنی اب میری آنکھوں میں وہ منظرگھوم رہاہے)انہوں نے کہاہم گواہی دیتے اوراقرارکرتے ہیں کہ ہم نے غدیرخم کے دن رسول اللہ ﷺ سے سناآپ فرمارہے تھے:کیامیں اہل ایما ن پران کی جانوں سے بڑھ کرحق نہیں رکھتا؟اورمیری بیویاں اہل ایمان کی مائیں ہیں؟توہم نے عرض کیابے شک آپ ہماری جانوں سے زیادہ ہم پرحق رکھتے ہیں اورازواج ِمطہرات ہماری مائیں ہیں۔آپ نے فرمایاپس میں جس کا مولی ہوں علی اس کا مولی ہے۔خدایادوستی کراس سے جس سے علی نے دوستی کی اوردشمنی کراس سے جس نے علی سے دشمنی کی۔

تراجم: یونس بن ارقم الکندی البصری شیعی اورلین الحدیث شخص تھایعنی روایت ِحدیث میں چنداں قابل اعتمادنہ تھا۔یزیدبن ابی زیادوغیرہ تلمیذاورعبیداللہ بن عمرالقواریری وحمیدبن مسعدہ ومحمدبن عقبہ کا شیخ ہے۔امام بخاری نے کہاہے: کوفی معروف الحدیث کان یتشیع،مگرابن حبان نے اسے بصری بتایاہے۔اورابن فراش نے اسے لین الحدیث کہاہے۔(تعجیل المنفعۃص459)میں کہتاہوں کہ اصحاب صحاح میں سے کسی نے اس شخص کی کوئی روایت تخریج نہیں کی۔یہ شخص خودشیعی تھااوراس کا شیخ یزیدبن ابی زیادبھی۔بلکہ یزیدکوتورافضی سمجھنابھی بجاہے۔وزیرے چنیں شہریارے چناں۔یزیدکے غیرثقہ ہونے پر تمام ائمہ حدیث متفق ہیں۔واضح رہے کہ تعجیل المنفعۃ مطبوعہ دائرۃ المعارف میں یونس بن ارقم کی جگہ یوسف بن ارقم غلط چھپ گیاہے۔

(۲)قال عبداللہ حدثنااحمدبن عمرالوکیعی ثنازیدبن الحباب ثناالولیدبن عقبہ بن نزارالعنسی حدثنی سماک بن عبیدبن الولیدالعبسی قال:دخلت علی عبدالرحم بن ابی لیلیٰ فحدثنی انہ شہدعلیارضی اللہ عنہ فی الرحبۃ فقال انشداللہ رجلاًسمع رسول اللہ ﷺ وشھدہ یوم غدیرخم الاویشھدولایقوم الامن قدرأہ فقام اثناعشررجلافقالواقدرأیناہ وسمعناہ حیث اخذبیدہ یقول اللہم وال من والاہ وعادمن عاداہ وانصرمن نصرہ واخذل من خذلہ فقام الاثلاثۃ لم یقوموافدعاعلیہم فاصابتہم دعوتہ۔ص 119)

(موضوع وکذب صریح من اولہ الی آخرہ)

تراجم: احمدبن عمربن حفص بن جہم بن واقد الکندی ابوجعفرالجلاب الضریرالمقدمی الوکیعی محمدبن فضیل وعبدالحمیدالحمانی وحفص بن غیاث وغیرہم کے تلمیذ اورمسلم وابوداؤد وعبداللہ بن احمد وغیرہم کے شیخ ہیں۔ وکیع بن جراح کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے وکیعی کہلانے لگے تھے۔ اکثراہل علم نے ان کی تعریف کی ہے۔ موسی بن ہارون کہتے ہیں: کان صالحاً ابن قانع کا قول ہے کان عبداصالحاً ثقۃثبتاً عبداللہ بن احمد نے بھی ان کوثقہ بتایا ہے اورابن حبان نے بھی کتاب الثقات میں ذکرکیاہے۔اورکہاہے کہ یہ غریب حدیثیں بیان کرتے ہیں۔ صفر235ھ میں وفات پائی (تہذیب ص 37الجزء الاول) ولیدبن عقبہ بن نزارالعنسی (نون کے ساتھ)نے حذیفہ بن ابی حذیفہ ازدی وسماک بن عبیدسے حدیثیں روایت کی ہیں۔اوراس سے زیدبن حباب نے۔حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ یہ شخص مجہول الحال ہے (تہذیب ص 321 الجزء الرابع)ہمارے علم میں زیدبن حباب کے علاوہ کسی اورنے اس سے روایت نہیں کی۔

سماک بن عبیدبن الولیدالعنسی بھی مجھول الحال شخص ہے اس نے صرف عبدالرحمن بن ابی لیلی ٰ سے روایت کی ہے اوراس سے ولیدبن عقبہ نے حافظ حسینی نے اس کے متعلق کہاہے:فیہ جہالۃ اس پر ابن حجرفرماتے ہیں: قلت بل روی عنہ ایضا سفیان الثوری وذکرہ ابن حبان فی الثقات (تعجیل المنفعۃ)میں کہتاہوں کہ سفیان ثوری کے روایت کرنے سے جہالت مرتفع نہیں ہوجاتی اورابن حبان کا اسے کتاب الثقات میں ذکرکرنا اس کے ثقہ ہونے کا ثبوت نہیں ہے کیونکہ ابن حبان نے حسن ظن کی بناپرصدراول کے ضعیف ترین لوگوں کوبھی کتاب الثقات میں شامل کردیاہے۔ اغلب یہ ہی ہے کہ یہ سماک بن عبیدکوئی رافضی یاغالی شیعی تھا اصحاب صحاح نے اس کی کوئی روایت تخریج نہیں کی۔

طریق سابع:(۱)قال عبداللہ حدثنی حجاج بن الشاعرثناشبابۃ حدثنی نعیم بن حکیم حدثنی ابومریم ورجل من جلساء علی عن علی رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال یوم غدیرخم من کنت مولاہ فعلی مولاہ“قال فزادالناس بعدہ:وال من والاہ وعادمن عاداہ“ص152

اس روایت کی اسنادمیں نعیم بن حکیم ضعیف ومنکرالحدیث شخص ہے اوراس کا شیخ ابومریم مجھول الحال۔ دونوں کا تذکرہ اسی جلد(ارشادالطالب شرح مسندعلی ابن ابی طالب)کے صفحہ ۵ پرگزرچکاہے،جویہاں نقل کیا جاتا ہے۔

نعیم بن حکیم المدائنی عبدالملک بن حکیم کا بھائی ہے۔ اس نے عبدالملک بن ابی بشیروابومریم ثقفی سے کچھ حدیثیں روایت کی ہیں۔اوراس سے ابوعوانہ ووکیع ویحی القطان واسباط بن محمد وشبابہ وعبداللہ بن داؤدالخریبی وغیرہم نے۔ ضعیف ومنکرالحدیث شخص تھا۔ نسائی نے کہاہے۔ لیس بالقوی ابن سعد نے لم یکن بذاک، ازدی نے ”احادیثہ مناکیر“ابن معین سے توثیق بھی منقول ہے اورتضعیف بھی۔بقول ابوداؤدنعیم نے 148ھ میں وفات پائی۔تہذیب التہذیب میں ہے:قال الآجری عن ابی داؤدمات نعیم بن حکیم سنتہ ثمان واربعین ومأۃ۔

ابومریم الثقفی المدائنی اصحاب علی میں سے ایک مجھول الحال اورمجہول الاسم شخص ہے۔اس سے صرف نعیم بن حکیم اوراس کے بھائی عبدالملک نے روایت کی ہے۔ابوحاتم وابن حبان نے اس کا نام قیس بتایا ہے۔ ابن حبان نے اسے ثقات میں ذکرکیاہے۔اورنسائی نے کہاہے:قیس ابومریم الحنفی ثقۃ مگرحافظ ابن حجرنے اسے نسائی کا وہم قراردیاہے وہ کہتے ہیں کہ ابومریم الثقفی کا نام جیساکہ ابوحاتم اورابن حبان نے کہاہے قیس ہے اوررہے ابومریم الحنفی توعلی بن المدینی نے ا ن کا نام ایاس بن صبیح بتایا جہے۔حضرت ابوموسی اشعری نے اسے مصرکا قاضی بنایا تھا اوراس نے حضرت عمرووعثمان  سے روایت کی ہے اوراس سے اس کے فرزندعبداللہ اورمحمد بن سیرین نے اوردارقطنی نے ابومریم ثقفی کومجہول کہاہے۔(تہذیب التہذیب الجزء الرابع ص 587)

(۲)قال عبداللہ حدثناعلی (ہوابن حکیم)انبأناشریک عن الاعمش عن حبیب بن ابی ثابت عن ابی الطفیل عن زیدبن ارقم عن النبی ﷺ مثلہ ص 118

تحقیق: یہ حدیث مسند میں حدیث نمبر4 کے بعددرج ہے جسے ہم ص255 پر نقل کرآئے ہیں۔ اوراگرچہ یہ مسندعلی نہیں ہے بلکہ مسندزیدبن ارقم ہے۔ اس لیے مسندعلی میں اسے ثبت کرنا نا مناسب ہے مگرعبداللہ بن احمدنے غالباًاسے حدیث علی کی تقویت وتائید کے لیے یہاں ذکرکردیا ہے۔اس روایت کی اسناد میں اگرچہ قاضی شریک نہایت ضعیف ومنکرالحدیث شخص ہے مگرسلمہ بن کہیل نے بھی ابوالطفیل سے یہ حدیث روایت کی ہے اورشبعہ سے بواسطہ محمدبن جعفرترمذی نے۔عن سلمۃ بن کھیل قال سمعت اباالطفیل یحدث عن ابی سریحۃ ابوزیدبن ارقم۔شک شعبہ۔عن النبی ﷺ قال:من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔ہذاحدیث حسن غریب (سنن الترمذی مناقب علی حدیث نمبر۲)سلمہ بن کھیل کا بیان ہے کہ میں نے ابوالطفیل یعنی عامربن واثلہ سے سناوہ ابوسریحہ یازیدبن ارقم سے روایت کرکے بیا ن کررہے تھے (شعبہ کواچھی طرح یادنہیں رہاکہ سلمہ بن کھیل نے ابوسریحہ کا ذکرکیا تھا یا زیدبن ارقم کا)کہ حضورﷺ نے فرمایا:جس کا مولی میں ہوں علی بھی اس کے مولی ہیں۔ ابوسریحہ‘حضرت حذیفہ بن اسیدرضی اللہ عنہ کی کنیت ہے۔ ظاہرہے کہ یہ طریق ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی اول کی ہی تعیین نہیں کہ وہ کون تھا۔ابوسریحہ یازیدبن ارقم اورقاضی شریک کی روایت اس لائق نہیں کہ اس پر اعتماد کرکے ہم اسے زیدبن ارقم کی حدیث قراردے لیں۔ ہاں شریک کی روایت کواگردرخوراعتنا قراردیاجائے تویہ زیدبن ارقم کی بیان کردہ حدیث ہوگی لیکن اس میں لفظ علی سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کومراد لینا صحیح نہیں ہے۔جیساکہ ہم آخرمیں بیان کریں گے۔

(۳)علی وزیدبن ارقم کے علاوہ یہ حدیث براء بن عازب کی طرف بھی منسوب کی گئی ہے۔ابن ماجہ کہتے ہیں: حدثناعلی بن محمدثناابوالحسین اخبرنی حمادبن سلمۃ عن علی بن زیدبن جدعان عن عدی بن ثابت عن البراء بن عازب قال اقبلنامع رسول اللہ ﷺ فی حجتہ التی حج فنزَل فی بعض الطریق فامرالصلاۃ جامعۃ فاخذبیدعلی فقال الست اولی بالمؤمنین من انفسہم؟قالوابلی۔قال الست اولی بکل مؤمن من نفسہ؟ قالوابلی،قال فھذاولی من انامولاہ۔اللہم وال من والاہ وعادمن عاداہ ص 12 فضل علی طبع الہند)

علی بن زیدبن جدعان رافضی نے عدی بن ثابت رافضی سے روایت کی ہے کہ حضرت براء بن عازب نے بیان کیاکہ حجۃ الوداع میں ہم حضورﷺ کے ساتھ (مکہ سے)عازم مدینہ ہوئے۔دوران سفرمیں آپ نے (خم نامی تالاب پر)پڑاؤکیااورحکم دیاکہ الصلاۃ جامعہ کہ كر لوگوں کوجمع کرلیاجائے۔(جب لوگ آگئے)توآپ نے علی ؓ کا ہاتھ پکڑکرفرمایا کیا اہل ایمان پر ان کی جانوں سے زیادہ میراحق نہیں ہے؟لوگوں نے کہاکیوں نہیں۔ فرمایا کیا میراحق ہرمومن پر اس کی جان سے زیادہ نہیں ہے؟حاضرین نے کہا یقیناہے۔ فرمایاتویہ علی اس کے ولی ہیں جن کامیں ولی ہوں (یعنی علی ہرمسلمان کے مولی ہیں)(یہ کہ کر آپ نے دعا فرمائی)اے اللہ تواس شخص سے دوستی کرجوعلی سے دوستی رکھے اوردشمنی کراس سے جواس سے دشمنی کرے۔اس حدیث کی اسنادمیں علی بن زیدبن جدعان اورعدی بن ثابت دونوں رافضی ہیں۔علی بن زیدکا عقیدہ یہ تھاکہ علی ؓدوبارہ دنیامیں آئیں گے۔اس کے لیے اس نے کئی موضوع احادیث روایت کی ہیں۔اورعدی بن ثابت انصاری کوفہ کے شیعوں کي مسجدکا امام اوران کا خاص واعظ تھا۔ ابوحاتم فرماتے ہیں:کان امام مسجدالشیعۃ وقاصہم یحیٰ بن معین نے کہاہے:شیعی مفرط ابواسحاق جوزجانی کہتے ہیں:مائل عن القصد،دارقطنی کا قول ہے:کا ن غالیاًفی التشیع۔اس شخص میں یہ بھی مرض تھاکہ صحابہ کے آثارموقوفہ کواحادیث مرفوعہ بناکربیان کردیا کرتا۔شعبہ نے کہاہے:کان من الوضاعین (تہذیب التہذیب الجزء الثالث ص 85  )ویسے قوی الحفظ اورصوم وصلاۃ کا پابند تھااس لیے بہت سے لوگوں نے ثقہ بھی قراردیاہے۔ حالانکہ رافضی ہونااورثقہ ہونامتضاد بات ہے۔ یہ حدیث یا توعدی بن ثابت کی گھڑی ہوئی ہے یاعلی بن زیدکی۔

۳۔اسی طرح امام ابوداؤدطیالسی نے بھی ایک مکذوب وموضوع روایت نقل کی ہے:حدثناابوداؤدقال:حدثناالاشعث بن سعید حدثناعبداللہ بن بشرعن ابی راشدالحبرانی عن علی رضی اللہ عنہ قال :عممنی رسول اللہ ﷺ یوم غدیرخم بعمامۃ سدلہا خلفی ثم قال:ان اللہ عزوجل امدنی یوم بدروحنین بملائکۃ یعتمون ھذہ العمامۃ،فقال:ان العمامۃ حاجزۃ بین الکفروالایمان،ورأ رجلا یرمی بقوس فارسيۃ فقال:ارم بہا،ثم نظرالی قوس عربیۃ فقال:علیکم بھذہ وامثالہا ورماح القنی فان بھذہ یمکن اللہ لکم فی البلاد ویئيد لکم فی النصر(مسندابوداؤدالطیالسی،احادیث علی،حدیث نمبر149

کہ سیدناعلی ؓ نے فرمایاکہ غدیرکے دن حضورﷺ نے میرے سرپر ایک خاص قسم کا عمامہ باندھا اوراس کا شملہ پیچھے کوچھوڑا پھرفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے میری مدد بدروالے دن ان فرشتوں سے کی تھی جویہی عمامہ باندھے ہوئے تھے۔ پھرفرمایاکہ یہ عمامہ کفروایمان کے درمیان حدفاصل ہے۔اورآپ ﷺ نے ایک آدمی کودیکھا جوفارسی کمان لیے ہوئے تھا توفرمایا:اس کوپھینک دوپھرآپ نے عربی کمان کودیکھا اورفرمایااس طرح کی کمانوں کواورتیروں کولازم پکڑلوکہ ان کے ذریعہ اللہ تعالی تمہیں ملکوں میں فتح ونصرت سے نوازے گا۔

اس روایت کی سندمیں الاشعث بن سعید ابوالربیع السمان البصری ہے جوبالاتفاق ضعیف ومنکرالحدیث ہے۔تمام ائمہ رجال نے اس پر سخت تبصرے کیے ہیں (تہذیب التہذیب ج۱ ص178)

طرق مذکورہ کی اسانیدکے مطالعہ سے یہ بات روزروشن کی طرح آشکاراہوجاتی ہے کہ یہ حدیث کسی قابل اعتماد طریق سے مروی نہیں ہے۔ آئیے اب ذرااس کے متن کا مطالعہ کرلیں۔

حضرت علی سے جن طرق کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے ان میں غدیرخم کا ذکرہے اورابومریم کے طریق کے علاوہ ہرطریق میں یہ مذکورہے کہ حضرت علی نے حاضرین سے اللہ کا واسطہ دیکرپوچھا تھا کہ غدیرخم کی منزل پرحضورﷺ نے میرے متعلق جوبات ارشادفرمائی تھی حاضرین میں سے جن لوگوں نے اسے سنا ہواٹھ کربتائیں۔ زاذان بن عمرکی روایت کے مطابق تیرہ حضرات نے اورزیاد بن ابی زیاد وغیرہ کی روایت کے مطابق بارہ حضرات نے اٹھ کربیان کیا کہ ہم نے یہ بات حضورﷺ سے سنی تھی: من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ جس کا مولامیں ہوں علی بھی اس کے مولی ہیں۔ زیاد بن ابی زیاد وعبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی روایت میں تصریح ہے کہ یہ بارہ حضرات اہل بدرصحابہ تھے۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔کتب رجال وتاریخ سے یہ ثابت ہے کہ اہل بدرمیں سے حضرت علی ؓ کی خلافت کا زمانہ ۲۲صحابہ کرام نے پایا ہے ان میں سے حضرت علی ؓ کے ہواخواہ کی حیثیت سے صرف چھ حضرات کا نام ملتاہے۔ جویہ ہیں:

عماربن یاسر،سہل بن حنیف انصاری، فروہ بن عمروبن ودقۃ البیاضی،زیادبن لبید بن ثعلبہ البیاضی،ابوایوب انصاری،ابوبردہ بن نیارانصاری۔

ان میں سے عماربن یاسروسہل بن حنیف حضرت علی ؓ کے ساتھ جنگ جمل وجنگ صفین دونوں میں شریک رہے۔عمارجنگ صفین میں مارے گئے اورسہل بن حنیف کا اس کے بعد کوفہ میں انتقال ہوگیا سنہ 38ھ میں۔عماربن یاسرحضرت علی ؓکے قدیم دوست تھے اورسہل بن حنیف سیدناعلی ؓکے مواخاتی انصاری بھائی تھے۔ رہے فروہ بن عمروتووہ جنگ جمل میں حضرت علی کے ساتھ تھے،علاوہ برین ان کی سیرت حضرت عثمان ؓ کے خلاف بغاوت اورباغیوں کی مساعدت وموافقت کرنے کا بدنما داغ بھی اپنی پیشانی پر رکھتی ہے۔ اگرچہ کہاجاتاہے کہ ابن اسحاق نے فروۃ بن عمروکوغلطی سے بری قراردیاہے مگرالاصابہ وغیرہ میں ہے:کان ممن اعان علی قتل عثما ن وکان من اصحاب علی یوم الجمل“اورزیاد بن لبیدانصاری کی جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ شرکت ضراربن صرد نے بیان کی ہے۔الاصابہ میں حافظ ابن حجرنے اسی حوالہ سے یہ بات لکھی ہے مگراس کی کوئی سند بیان نہیں کی۔ صرف یہ بتایاہے کہ ضراربن صردنے اپنی اسنادکے ساتھ اسے ذکرکیاہے۔ کاش ابن حجروہ اسنادبھی نقل کردیتے تواس کی صحت یاعدم صحت کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہوتی۔اورابوایوب انصاری جنگ نہروان کے علاوہ کسی بھی جنگ میں حضرت علی کے ساتھ نہیں رہے۔ نہ جمل میں نہ صفین میں۔ کیونکہ وہ خوارج ِنہروان کوتوواجب القتل اورواجب القتال سمجھتے تھے مگرطلحہ وزبیراورمعاویہ وعمروبن العاص اوران کے ساتھیوں سے جنگ کرناان کے نزدیک درست نہ تھا۔ رہے ا بوبردہ بن نیارانصاری توان کے متعلق ابن عبدالبرنے ”الاستیعاب“میں واقدی کے حوالہ سے بیان کیاہے۔مات فی اول خلافۃ معاویۃ بعد شهودہ مع علی حروبہ کلہا“لیکن ابن عبدالبرکے بیان کا جزوثانی صحیح نہیں ہے کیونکہ واقدی کے مشہوروثقہ تلمیذ ابن سعد نے طبقات میں واقدی کا قول صرف یہ نقل کیاہے: اخبرنامحمدبن عمر۔الواقدی۔قال سمعت ابراھیم بن اسماعیل بن ابی حبیبہ یقول:مات ابوبردہ بن نیارفی خلافۃ معاویۃ بن ابی سفیان“(طبقات ج 4 ص25) پس بعد شهودہ مع علی حروبہ کلہا“واقدی کا قول نہیں ہے بلکہ ابن عبدالبرکا غیرمستند وبے دلیل قول ہے جسے اُس نے واقدی کے قول کے آخرمیں لاحق کردیاہے۔اس تفصیل سے ثابت ہوتاہے کہ اہل بدرصحابہ میں سے عماربن یاسروسہل بن حنیف اورفروہ بن عمروصرف تین شخصوں کا حضرت علی کے موافق وشریک ِکارہوناثابت ہے۔ب قیہ حضرات میں سے طلحہ وزبیرعلی برخلاف تھے اوردیگرحضرات منقطع اورالگ تھلگ ۔ جب صورت حال یہ ہے توپھروہ کون سے بارہ یا تیرہ بدری صحابہ تھے جنہوں نے مجمع عام میں حضرت علی کے متعلق یہ بات بیان کرڈالی جوان روایات میں مذکورہے؟سبحانک ھذابہتان عظیم۔

ابومریم کے طریق میں تصریح ہے کہ اصل حدیث تو”من کنت مولاہ فعلی مولاہ ہے”۔ مگربعض راویوں نے اس میں:وال من والاہ وعادمن عاداہ (اے اللہ تواس شخص سے دوستی کرجوعلی سے دوستی رکھے اوردشمنی کراس سے جواس سے دشمنی کرے)کا اضافہ اپنی طرف سے کردیاہے اورنبی ﷺ پرکذب وافتراء کیاہے۔میں کہتاہوں کہ ابومریم نے جس کواصل حدیث بتایاہے یہ حدیث نہیں ہے۔کیونکہ اس میں اگرمَولیٰ کودوست کے معنی میں لیاجائے توحضرت علی ؓ کاخصوصیت کے ساتھ نام لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔حضورﷺ سے محبت رکھنے والاہرصحابی سے اورآپ کی طرف منسوب ہرچیز سے محبت رکھتاہے۔اوراگرمَولیٰ کورشتہ داراورابن العم (چچاکا بیٹا)کے معنی میں لیاجائے تویہ بات فی نفسہ صحیح نہیں کہ جوشخص حضورﷺ کے چچا کا بیٹا ہووہ علی کے بھی چچا کا بیٹا ہو۔ مثلاًعقيل وجعفرحضورﷺ کے ابن العم تھے لیکن حضرت علی ؓکے ا بن العم نہیں بلکہ سگے بھائی تھے۔ پس بہ این معنی “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” ایک فضول وبے معنی بات ہے جوہرگزارشاد وفرمود ه نبوی نہیں ہوسکتی۔

ہاں اس حدیث کے جملہ طرق میں سے نسبتاً قوی الاسناد طریق ابوالطفیل کا طریق ہے۔ابوالطفیل نے حضرت ابوسریحہ یازید بن ارقم سے روایت کی کہ حضورﷺ نے فرمایا:من کنت مولاہ فعلی مولاہ“اس حدیث میں نہ غدیرخم کا ذکرہے نہ یہ کہ حضورﷺ نے حضرت علی ؓکا ہاتھ پکڑکریہ بات کہی تھی۔اس کے معنی میں دواحتمال ہیں:

اول یہ کہ ”علی“سے مرادحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہوں۔ بریں تقدیریہ حدیث فضول ومہمل قرارپاتی ہے کیونکہ لفظ مَولیٰ عربی زبان میں جن معانی کے لیے آتاہے ان میں سے کسی معنی کے لحاظ سے بھی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ہوکہ آپ جس شخص کے مولی ہیں علی بھی اس کے مولی ہیں۔

مَولی ٰ کے معنی ہیں:1۔مالک وآقا،2۔آزادکرنے والا،3۔محسن،4۔ دوست ومحب، 5۔حلیف وہم عہد،6۔چچاکا بیٹا،7۔بہانجا،8۔داماد،9۔رشتہ دار10۔تابع وخادم، 11۔آزادکردہ غلام،12۔غلام۔

آخرالذکرتینوں معنی توظاہرہے کہ یہاں باطل ہیں۔اوردیگرمعانی بھی درست نہیں بیٹھتے۔ سیدنا ثوبان و غیرہ حضورﷺ کے غلام تھے۔آپ ان کے آقاومالک تھے علی نہ تھے۔ جن لونڈیوں وغلاموں کوآپ نے آزاد فرما یا تھاآپ ان کے مولی تھے علی نہ تھے۔ جن لوگوں پر آپ نے احسان وانعام فرمایا،نہیں کہا جا سکتاکہ علی ؓ نے بھی ان پراحسان وانعام فرما یا ہو۔جن سے آپ محبت فرماتے تھے،ضروری نہیں کہ علیؓ کوبھی ان سے محبت ہو۔ جن سے آپ نے عہد فرمایالازم نہیں آتاکہ علی نے بھی ان سے عہد فرمایا ہو۔بقیہ معانی کوبھی اسی پر قیاس کرلیں۔

دوسرااحتمال یہ ہے کہ علی اس حدیث میں عَلَم نہیں بلکہ اسم صفت ہوبمعنی بلندورفیع۔ اس صورت میں لفظ علی خبرمقدم ہے اورمولاہ مبتدامؤخر۔

اورمعنی یہ ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایاکہ میں جس شخص کا مَولی ٰ ہوں تواسے یقین کرناچاہیے کہ کوئی معمولی ولایت اسے حاصل نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کا مَولی ٰ ایک بلندورفیع ہستی ہے۔اس معنی کے لحاظ سے لفظ مَولی کے معانی مذکورہ میں اول الذکرنومعانی میں سے پانچ معنی میں یہ حدیث درست اوربجاوواقعی ثابت ہوتی ہے۔ اب ظاہرہے کہ عبارت کوایسے معنی پرہی حمل کرناضروری ہے جوفی نفسہ درست

 وبجا ہو۔ لہذا اس حدیث میں یہی معنی مطلب متعین ہے۔واللہ الملہم للصواب

حضورﷺ کے اس ارشادکی مثال ایسی ہے جیسے کوئی طاقتورآدمی اپنے دوست کوڈھارس بندھانے کے لیے کہے:من کنت صدیقہ فقوی صدیقہ“جس شخص کا میں دوست ہوں اسے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کا دوست کمزورنہیں بلکہ قوی ہے۔

پس شیعان علی نے لفظ علی کومعنی عَلَمی میں لیکرغدیرخم کا ذکراورحضورﷺ کا علی کے ہاتھ کوپکڑکریہ بیان فرمانا اورساتھ ہی دوستان علی کے حق میں دعااوردشمنان علی کے حق میں بددعا فرمانا اورپھرحضرت علی کا مقام رحبہ میں لوگوں سے اس کی شہادت طلب کرنا اوربارہ بدری صحابہ کا شہادت ادا کرنا یہ سب کچھ اس میں اپنی طرف سے جوڑدیا۔ بلکہ سماک بن عبید نے ایہ اضافہ بھی کردیاکہ حاضرین میں سے کچھ صحابی ایسے تھے جوغدیرخم کے موقع پر حاضرتھے اورحضرت علی ؓ کے کہنے پربھی انہوں نے کتمان ِحق کیا۔ نتیجہ میں انہیں علیؓ کی بددعاکا شکارہوناپڑا۔ ناظرین کویقین کرناچاہیے کہ ان مکروہ افسانوی باتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

(ماخوذمن الجزء الثالث من ارشادالطالب شرح مسندعلی ابن ابی طالب (من مسندالامام احمدبن حنبل،قلمی مسودہ)

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x