خاتم المحدثین علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی

ان سطورمیں ان کی خدماتِ حدیث وتفسير کامختصر تذكره كيا جائے گا۔
علامہ ازہرمیرٹھیؒ کا مختصرتعارف :علامہ ازہرمیرٹھیؒ (پیدائش1923 وفات 2005ء )(1) کے پرداداامیربخش خاں گاؤں کے بڑے زمین دارتھے جوان پڑھ ہونے اورہندوستان میں زمین دارہ ختم ہونے کے باعث مختلف مقدمات میں اپنی ساری اراضی گنوابیٹھے تھے ۔ان کے بیٹے اور علامہ کے داداملاجی عبد اللطیف ایک نیک منش اورسیدھے سادے انسان تھے ۔جن کوبڑی خواہش تھی کہ ان کی اولادمیں علم دین آئے ،وہ خو دتومعمولی پڑھے لکھے تھے مگراپنے بیٹے بشیراحمدخاں کوانہوں نے حفظ قرآن اورعلم دین کی راہ پرڈال دیا۔بشیراحمداس علاقہ کے نہایت جید حافظ وقاری تھے جن کی قرأت اورحفظ کی دوردورتک شہرت تھی ۔انہیں کے گھرغازی آبادکے توڑی گاؤں میں علامہ پیداہوئے بعدمیں میرٹھ کواپناوطن بنالیا۔اورمیرٹھی ہی اپنے نام کے لاحقہ کے طورپرلکھتے رہے اوراسی نام سے معروف ہوئے ۔
والدکے پاس حفظ کرنے اورابتدائی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعدمیرٹھ شہرمیں انہوں نے دینی علوم حاصل کیے ۔جن میں مولانامشیت اللہ دیوبندیؒ اورشاہ اختررضاخاں امروہویؒ سے خصوصی استفادہ کیا۔مولاناامروہوی شیخ الہندمولانامحمودالحسن دیوبندیؒ کے شاگردتھے ۔ مؤخرالذکرنے ان کوقرآن پاک کا ترجمہ شروع سے اخیرتک اورنحوی وصرفی ترکیب کے ساتھ پڑھایا۔موقوف علیہ تک میرٹھ میں پڑھنے کے بعدانہوں نے دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ لیاجہاں سے 1353ھ میں فراغت ہوئی ۔وہاں خصوصیت سے شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ ،مولانااعزازعلی امروہویؒ اورمولانافخرالدین مرادابادیؒ وغیرہم سے مستفیض ہوئے ۔(2) تحصیل علم سے فارغ ہونے کے بعدہی سے قرآن وحدیث اورعلوم عربیہ اسلامیہ کی تدریس کومشغلہ زندگی بنالیا۔خاص طورپر قرآن پر تدبراورحدیث کی تحقیق یہی دونوں زندگی بھراوڑھنابچھونابنے رہے ۔
تدریس حدیث: علامہ میرٹھیؒ نے کوئی 60سال دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ،جامعۃ الرشاداعظم گڑھ،مدرسۃ الاصلاح سرائمیر،ندوۃالسنہ کیرالا، ریاض العلوم دہلی ،جامعہ سیدنذیرحسین دہلی اورمدرسہ امدادالعلوم مرادآبادسمیت متعددمدارس میں بخاری ،مسلم اورحدیث کی دوسری کتابوں کا درس دیااورسینکڑوں تشنگان علم اورطالبان علوم نبوت کوسیراب کیا۔آپ کا درسِ حدیث بہت ٹھیراؤوالا،تحقیقی اورto the point ہوا کرتاتھاساری ترکیز اصل موضوع پر رہتی ، ادھرادھرکی باتیں بالکل نہیں کرتے تھے ۔راقم کویہ سعادت ملی ہے کہ اس نے علامہ سے نحو و صرف،فقہ میں قدروی ،ادب عربی ،ترجمۂ قرآن اورجلالین ، مفتاح القرآن کے بعض اجزاء کے علاوہ حدیث میں دارمی پڑھی ہے ۔
علامہ کے بارے میں علماء کی رائے : علامہ میرٹھی ایک قلندرصفت آدمی تھے انہوں نے علمی مراکزیاعلماسے بہت زیادہ خلاملانہیں رکھا۔نہ وہ جلسوں ا ور کانفرنسوں میں شریک ہوتے تھے ۔غالبااس کی بڑی وجہ توان کی افتادطبع تھی اوردوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے تفسیرِقرآن اورشرحِ وتحقیقِ حدیث کے جس بڑے کام کے لیے اپنے آپ کووقف کرکھاتھا اس کے لیے عمرِنوح درکارہے اگروہ اپناوقت بے فائدہ ملی جلسوں جلوسوں میں لگاتے توشایداتنابڑاکام نہ کرپاتے جوکرگئے ۔تاہم ملک کے باخبر،باذوق اورعلم دوست لوگ سب ان سے واقف تھے اوران کی عظیم صلاحیتوں کے معترف چنانچہ میرے استادمولاناسعیدالاعظمی الندوی جوخودایک محدث کے بیٹے اوربرصغیرمیں عربی زبان وادب کے استادالاساتذہ اورمایۂ ناز ادیب ہیں وہ علامہ میرٹھی کی وفات پر ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں:
لقدکان الراحل الکریم من کبارعلماء ھذہ البلاد،عرف بغزارۃ علمہ وتعمق نظرتہ فی علوم الکتاب والسنۃ ،فکان ذانظرۃ فاحصۃ فی العلوم الاسلامیۃ ،وذامکانۃ عالیۃ فی اوساط العلماء الراسخین ۔( 3) (راہئ عدم ہونے حضرت مولانا اس ملک کے بڑے علماء میں سے تھے ۔ اوراپنے وسیع علم اورکتاب وسنت میں عمیق نظرکے لیے معروف تھے ،اس کے علاوہ سارے علوم اسلامیہ میں تحقیقی نظررکھتے تھے ،علماء راسخین کے مابین ایک بلندوبالامقام کے حامل تھے )شبلیات کے معروف محقق جناب الیاس اعظمی صاحب نے یوں خراج عقیدت پیش کیا: علوم دینیہ قرآن وحدیث ،تفسیر،فقہ ،فلسفہ ،منطق،اورادب پر ان کی گہری نظرتھی ۔خاص طورسے قرآن وحدیث میں ان کوبڑاتبحرحاصل تھا،قرآن پاک سے توگویاان کوعشق تھازندگی کا ایک بڑاحصہ انہوں نے قرآن پاک پر غوروفکرمیں صرف کیااور۔۔۔تفسیرمفتاح القرآن لکھی جس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مرکوز کی ۔۔۔۔قرآن پاک کی طرح حدیث پر بھی ان کی گہری نظرتھی ،بلکہ وہ ایک بلندپایہ محدث تھے ،اوربقول مولانامجیب اللہ ندوی مدظلہ (اب مرحوم )حدیث پر ان کی اس قدرگہری نظری تھی کہ شایدہی ہندوستان میں اس کی کوئی نظیرہو۔( 4)اسی طرح جب علامہ کی کتاب شرح مسندکاپہلاحصہ نہایۃالتحقیق چھپاتواس پر مشہورعالم اورمایۂ نازفقیہ مولانامجیب اللہ ندوی ؒ مؤسس جامعۃ الرشاداعظم گڑھ نے ایک مبسوط مقدمہ تحریرفرمایا۔جوپوراقابل مطالعہ ہے ۔اس مقدمہ میں انہوں نے لکھاہے : راقم کوہندوستان وپاکستان کے سبھی ممتاز علماء کی خدمت میں حاضری کا موقع ملاہے ،مگریہ کہناشایدمبالغہ نہ ہوگاکہ ہندوستان وپاکستان کے دوچارعلماء کوچھوڑکرفن حدیث اوراسماء الرجال پر مولاناکی جتنی گہری نگاہ اوراستحضارہے وہ کم ہی دیکھنے میں آیاہے ۔یہ خداکاخصوصی فضل ہے کہ اس زمانہ قحط الرجال میں اس نے انہیں عطاکیاہے ۔(5)
قلمی آثار: (۱) اقوم المسالک الی مؤطا الامام مالک :یہ علامہ میرٹھی کا سب سے پہلاحدیثی کارنامہ ہے جس کے انہوں نے چھ حصے لکھے تھے۔یہ ناتمام ہے ۔ اور اس کے اکثرحصے ضائع ہوگئے ہیں ۔میرے پاس اس کے کچھ اجزاء ہیں جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک عالمانہ شرح ہے ۔اس کا انداز یہ ہے کہ پہلے حدیث ذکرکرتے ہیں،اس کا ترجمہ کرتے ہیں،حدیث کے مختلف طرق کا تذکرہ کرتے ،پھرتراجم رواۃاورتحقیق حدیث ۔اس کے بعدفقہ حدیث ا ورحدیث سے نکلنے والے مسئلہ کی توضیح نیز اس سلسلہ میں مختلف فقہی اختلافات کا کا ذکراورمحاکمہ اورراجح قول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اسلوب بیان نہایت آسان اورششتہ اورسہل ہے اوراجتہادی ذوق اس میں بھی عیاں ہے ۔(6)راقم نے اقوم المسالک کے یہ مسودات حرفاحرفاپڑھے ہیں اوران کوپڑھنے کے بعدہی یہ رائے دی ہے
2-مسنداحمدبن حنبل :مسنداحمدحدیث کا نادرانسائکلوپیڈیاہے جس میں تقریبا40ہزارحدیثیں راوی صحابی کی ترتیب سے ذکرکی گئی ہیں۔موجودہ زمانہ میں شیخ حسن البناء کے والدشیخ احمد ساعاتی ؒ نے پہلے مسند احمد کی تبویب فقہی مباحث کے لحاظ سے کی جس کا نام الفتح الربانی فی ترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی رکھا، پھر اس کی شرح بلوغ الامانی کے نام سے لکھنی شروع کی۔ جس کی ۵ جلدیں شائع ہوگئی ہیں۔ یہ کتاب الصلاۃ تک ہے۔ پھر اس کو شیخ احمد شاکر مصری نے بھی ایڈٹ کیا لیکن ان کا کام بھی ناتمام ہے۔ علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھیؒ نے اردو میں مسند احمد کی مفصل شرح و تحقیق کا کام کیا جو مسند سعد بن ابی وقاصؓ تک پہنچ گیا۔ یہ جلیل القدر علمی کا م جو19 جلدوں تک پہنچابھی ناتمام رہ گیا۔ان کا خیال تھاکہ پوری مسندکی شرح 200 جلدوں میں آئے گی ۔صرف پہلا حصہ ہی منظر عام پر آسکا جس کا نام نہایۃ التحقیق شرح مسند ابو بکر الصدیق ہے۔ بقیہ مسودات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: منتھی الآراب شرح مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۳ جلد۔ مواہب المنان شرح مسند عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۳جلد، إرشاد الطالب شرح مسند علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ۵ جلد، نیل المراد شرح مسند طلحۃ الجوادرضی اللہ عنہ ، نیل المرام شرح مسند الزبیر بن العوام رضی اللہ عنہایک جلد۔ درر الغواص شرح مسند سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ۔ یہ سب مسودات ابھی غیر مطبوعہ ہیں اور الماریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔اورافسوس یہ ہے کہ ان میں کئی توبالکل ضائع ہوگئے اورکئی کومرورزمانہ نے سخت نقصان پہنچادیاہے۔ کاش کوئی صاحبِ خیر متوجہ ہو اور یہ منظر عام پر آسکیں۔(7 )
علامہ میرٹھی نے مسنداحمد کی شرح وتوضیح بڑے محققانہ انداز میں لکھی ہے اوراپنی بہترین تصنیفی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیاہے ۔راقم کے پاس ان میں سے کئی سارے مسودات موجودہیں۔اس میں انداز مؤطاکی شرح سے تھوڑابدلاہے کہ پہلے حدیث ذکرکرکے اس کا ترجمہ لکھتے ہیں اورترجمہ کے بعدتراجم رواۃ ،اوراس کے بعدحدیث کے جملہ طرق مختلف کتب حدیث سے نقل کرتے ہیں اورتحقیق کرکے حدیث کا پایہ متعین کرتے ہیں۔اس کے بعداس کے معنی کی مفصل شرح وتفصیل کرتے ہیں۔زیربحث حدیث کے جملہ طرق نقل کرنے سے واقعہ کی اصل تصویرسامنے آجاتی ہے اورفقہِ حدیث کے نئے پہلے ابھرتے ہیں۔البتہ کتاب کی ضخامت روایت کے جملہ طرق نقل کرنے سے بہت بڑھ گئی ہے -شرح مسندکے شروع میں جومقدمہ لکھاہے اس میں ان سب مسودات کا اجمالی تذکرہ ہے ۔
تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری 16جلدعربی :(8)یہ بخاری کی مکمل شرح ہے اورعلم حدیث کا جامع انسائکلوپیڈیا۔شرح بخاری کی ابتداء ندوۃ العلماء میں بخاری کے درس کے دوران ہوئی تھی ۔جس کے لیے مہمیز کا کام علامہ کے ایک شامی شاگردسعیدالحلبی نے کیاتھا۔جواس وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم حاصل کررہے تھے ۔افسوس کے اب ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ۔یہ عظیم کام پایۂ تکمیل کوپہنچاہے اور16جلدوں میں مکمل ہوا ہے
علامہ قرآ ن وحدیث ،فقہ اورعلوم عربیت میں مطلق امامت کے درجہ پر فائزتھے ۔انہوں نے ساری عمردارالعلوم ندوة العلماءلکھنواورمدرسة الاصلاح سرائمیر سمیت مختلف بڑے عربی مدارس میں بخاری سمیت حدیث کی اہم کتابوں کا درس دیا،انہوں نے بخاری اورمسنداحمدبن حنبل کی شرحیں بھی لکھی ہیں۔ساری زندگی قرآن پرغوروفکراورمطالعہ وتحقیق میں گزاری اوراس دوربلاخیز میں شہرت وناموری کے ہرپہلوسے کٹ کراورزخارف دنیاسے مونھ موڑکرگوشہ نشینی کی زندگی گزاری ۔تفسیرمفتاح القرآن ان کی ساری عمرکے مطالعہ وتدبرکا نچوڑہے –
تفسیرمفتاح القرآن کی تصنیف کا آغاز علامہ میرٹھی ؒنے 2شعبان 1384ھ میں کیاتھا اور25جمادی الثانی 1405ھ میں تقریبا 21سال کی مدت میں یہ تفسیرمکمل ہوئی ۔ابھی تک اس کے صرف چندہی اجزاءشائع ہوسکے ہیں ۔سورہ فاتحہ سے سورہ انعام تک الگ لگ اجزاءمیں اوردرمیانِ تفسیرسے سورہ نورالگ شائع ہوئی ہے جس میں واقعہ افک کی تحقیق ہے ۔اس مطالعہ میں اس تفسیر کے مطبوعہ اجزاءکے ساتھ ہی اس کے مسودات کا حوالہ بھی آئے گا،کیونکہ یہ مسودات راقم الحروف کی تحویل میں ہیں اوراس کو ان کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہے ۔اوروہ فاونڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز کی جانب سے اس کی اشاعت کے لیے کوشاں ہے۔مطبوعہ اجزاءجومکتبہ ازہریہ رائدھنہ میرٹھ سے شائع ہوئے ہیں ،اب فاونڈیشن میں ہی دستیا ب ہیں۔راقم کی نظرمیں اس تفسیرکے امتیازی اورنمایاں پہلودرج ذیل ہیں:
تفسیری روایات کا تحقیقی مطالعہ : یہ اس تفسیرکا وہ علمی پہلوہے جس میں یہ تفسیرتمام قدیم وجدیدعربی واردوتفاسیرپر فوقیت رکھتی ہے ۔اوراس کی وجہ يه ہے کہ مفسرگرامی علوم قرآن کے ساتھ ہی علوم حدیث کے بھی امام تھے ۔اورعلم الحدیث پر ان کو اتناعبورحاصل تھا کہ انہوں نے صحیحین پر بھی نقدکیاہے ۔مسلم پر توانہوں نے تنقیدی کام شروع ہی کیاتھا کہ اللہ تعالی ٰکے ہاں سے بلاواآگیا،مگربخاری پر انہوں نے عربی میں اپنی شرح بخاری موسوم بہ تحفة القاری بشرح صحیح البخاری میں تفیصل سے اوراردومیں اختصارکے ساتھ اپنے تنقیدی مطالعہ کو دوجلدوں میں شائع کردیا ہے ۔ (9) اصل میں تفسیری روایات کا بیشترحصہ بے سروپاباتوں پر مشتمل ہے ،اس میں مرفوع احادیث کاحصہ بہت کم ہے ۔يہاں تک بخاری میں تفسیرقرآن کے باب میں جو احادیث وآثارجمع کیے ہیں ،ان میں امام بخاری نے تقریبامکمل طورپر علی بن ابی طلحہ ،نافع اور دوسرے راویوں کے تفسیری اقوال پر اعتمادکرلیاہے۔امام احمدکا مشہورقول ہے کہ : تین چیزیں ایسی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں : ثلاثة لااصل لہا: المغازی والملاحم والتفسیر۔ابن تیمیہؒ نے امام احمدکے قول کی توجیہ یہ کی ہے ای لااسنادلہا،اوراس کے بعدلکھاہے لان الغالب علیہا المراسیل کہ تفسیری روایات کا بیشترحصہ مرسلات پر مشتمل ہے ۔(10) لیکن بہت ساری تفسیری روایات جو حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں اور يہاںتک کہ بخاری ومسلم میں بھی جن کو مفسرین بالعموم نقل کرتے آرہے ہیں ان میں سے بھی اکثروبیشترغلط سلط رواتیں ہیں جیساکہ علامہ نے تفصیل سے اپنی تفسیرکے مختلف متعلقہ مقامات پر ہرایک روایت کاتفصیلی مطالعہ کرکے ثابت ومحقق کردیاہے۔ تفسیری روایات کے تحقیقی مطالعہ وتجزیہ کے اس کام کو مزیدآگے بڑھانے کی ضرورت ہے-
حواشي:
1-علامہ کے مختصرحالات کے لیے ملاحظہ ہو،غطریف شہباز الندوی ،الشریعہ ماہنامہ (پرنٹ اورآن لائن ،اورغلام نبی کشافی ،افکارملی کا شخصیات نمبرجولائی 2005ذاکرنگرنئی دہلی 632/9اوراس سائٹ پر دیکھیں تفسیرمفتاح القران کا تنقیدی مطالعہ: (مخطوطہ ومطبوعہ اجزاء) ایف ایف اوسی ڈاٹ اوآرجی
Ffosi.org
اس کے علاوہ NewageIslamپر بھی انگریزی میں علامہ کے مختصرحالات مل جائیں گے ۔راقم ان کی حیات وخدمات پر ایک مبسوط کام کررہاہے ۔
2- تحفۃ القاری شرح صحیح البخاری کے شروع میں علامہ نے اپنے حصول علم اوراساتذہ کبارجن سے علوم شرع اورعلوم حدیث حاصل کیے ان کا اوراپنی اسانیدکا تذکرہ کیاہے)
3-البعث الاسلامی ص 99 ابریل 2005) ندوۃ العلماء لکھنؤ
4 -ماہنامہ الرشاد،ص34مارچ اپریل 2005 )رشادنگراعظم یوپی انڈیا
5-علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ،نہایۃ التحقیق ،شرح مسنداحمدبن حنبل صفحہ۱۱۱/۳مکتبہ ازہریہ رادھنہ ضلع میرٹھ یوپی )
6-مختلف مسائل کے باب میں میں تمام مذاہب کی آراء اوران کے دلائل ذکرنے کے ساتھ دلائل کی روشنی میں جورائے زیادہ مضبوط محسوس ہوتی اس کا اظہارکرتے ہیں اوراس میں کسی مسلکی وجماعتی تعصب کوراہ نہیں دیتے ۔
7-اس علمی کام کی وسعت کا اندازہ یوں کیاجاسکتاہے کہ شائع شدہ پہلے حصہ میں صرف 30احادیث کی ہی تحقیق آسکی ہے ۔جبکہ مسنداحمدمیں 40ہزارروایتیں بتائی جاتی ہیں۔
8-س شرح کی اصل اہمیت یہی ہے کہ اس پر کسی مسلکی تعصب کا رنگ بالکل نہیں چڑھانہ کسی مذہب کی زبردستی پچ کی گئی ہے ۔یہ ایک ایسی چیز ہے جس سے حافظ ابن حجراپنی تمام ترجلالت علمی کے باوجوددامن نہیں بچاسکے اورحنفی مذہب پر شافعیہ کی ترجیح فتح الباری میں صاف ظاہرہے

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
1 Comment
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
Abdur Rehman
Abdur Rehman
3 years ago

In fact he was a great scholar

Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
1
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x