عہد اسلامی کے ہند میں غیرمسلموں کے ساتھ مسلما نوں کا برتاو؟

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ٭

مسلما ن ہند میں دوطریقوں سے آئے فتوحات کے ذریعہ اورتاجروں اورصوفیاء کے ذریعہ ۔ یقینا فتوحات میں ہندووں سے جنگیں بھی ہوئیں خون بھی بہا اورناخوش گوارواقعات بھی پیش آئے ،مگران کا تناسب صلح جوئی ،رواداری اوراعلی انسانی سلوک کے واقعات کے مقابلہ میں کم رہا ہے۔ اگلی سطورمیں بہت ہی اختصارکے ساتھ فتوحات کے بعد مسلمانوں کا تعامل غیرمسلموں کے ساتھ کیا رہا اس کی وضاحت کی جائے گی ۔ 

عربوں کے تعلقات ہند سے اسلام سے پہلے سے ہی تھے اوریہ زیادہ ترتجارت کے وسیلہ سے قائم ہوئے تھے اوراس کی وجہ سے بہت سے ہندوستانی الفاظ عربی کا حصہ بن گئے ۔ یہاں کی کئی چیزیں عرب میں مشہورومعروف ہوئیں جیسے کہ ہندوستان میں بنی ہوئی تلوارکوعرب مہند کہتے تھے یہاں تک کہ ناموں میں بھی اس کا اثردکھائی پڑا۔ ہند نام کی کئی مشہورعرب خواتین کومثال میں پیش کیاجا سکتا ہے۔ اس کی بہت تفصیل سیدسلیمان ندوی کی کتاب عرب وہند کے تعلقات میں   ملتی ہے۔( ۱)بہت سے ہندی الفاظ جوعربی کا حصہ بنے مثلاً:

کافور(کپور)زنجبیل(زنجیرا)قرنفل(کرن پھول)الانبج(آم)نارجیل(ناریل)صندل (چندن) اطریفل (تری پھیل )اس طرح کے بہت سارے الفاظ کی فہرست سید سلیمان ندوی نے اپنی دوسری کتاب لغات جدیدہ میں دی ہے۔(۲ )

سندھ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے اپنے سرپرست اوربنی امیہ کے مردآہن امیرحجاج بن یوسف سے اس بارے میں استفسار کیا تھا اورامیرموصوف کے مشورہ سے مفتوحین کوشبہ اہل کتاب کا درجہ دیا تھا۔ برہمنوں کوان کے عہدوں پر رکھا ان کے منادرکوبرقراررکھا اوران کوپوری مذہبی آزادی دی۔(۳)

خلیفہ ہارون رشیدعباسی کے زمانے میں ہندوستان سے کئی وید بغداد بلائے گئے ۔جنہوں نے خليفه کا علاج کیا ان میں مشہورفلسفی اورطبیب منکہ (یا مانک بھی تھا)عباسی زمانے ہی میں صفرہندوستان سے عربوں میں پہنچی اورپھران کے ذریعہ یورپ تک پہنچی۔ ہیئت اورریاضی میں برہم گپتا کی کتاب ”سدھانت “کا عربی میں ترجمہ ہوا زیج السندہند کے نام سے 4))

محمودغزنوی کے زمانہ میں البیرونی ہندوستان آیا جس نے مختلف آشرموں میں جاکرسادھووں کی شاگردی اختیارکی ،سنسکرت سیکھی اوراپنی مشہورکتاب تحقیق ما للہند من مقولة مقبولة اومرذولة یا کتاب الہند لکھی جوقدیم ہند کے مذاہب ،تہذیب وتمدن اورافکاروخیالات ،ہندووں کے مذہبی وفلسفیانہ افکار، برہمنوں کی رسم ورواج جاننے کا سب سے بڑاذریعہ ہے۔ البیرونی کے خیالات اہل ہندکے ليے بہت زیادہ رواداری اورتعریف سے بھرے ہوئے ہیں۔ (5)کتاب بڑی محنت اورتحقیق سے لکھی گئی ہے اوربڑی انصاف پسندی کا ثبوت دیا گیا ہے ۔یہاں تک مستشرق سخا ونے کہاکہ اگرہندووں کواپن خیالات وفلسفیانہ افکارکی وسعت وبلندی پر فخرہوسکتا ہے توعربوں کواس پر فخرہوسکتا ہے کہ ان کے ایک عالم نے انتہائی دقت نظری ،وسعت اورانصاف پسندی سے ان کے افکاروخیالات کوعربی میں نقل کرکے پوری دنیا کے ليے ایک شاندارمرقع تیارکرد یا۔ شبلی کہتے ہیں کہ ہندوستان کے علوم وفنون اوررسوم وعادات پر جوکچھ البیرونی نے لکھ دیا ہے اس کے آگے پچھلی تمام تصنیفیں بازیچہ اطفال بن گئیں۔ (6 ۔مقالات شبلی ص25 جلد5،طبع دارالمصنفین اعظم گڑھ

محمودغزنوی نے متعدد حملے ہندوستان پر کيے ،اس کولٹیرااوربت شکن اورنہ معلوم کیا کیا کہا جا تا ہے مگرخوداس کے دربارمیں کئی ہند وسردار،امراءاورفوجی افسرتھے جن میں ایک کا نام سندرتھا۔ اورایک بڑامنصب داراورترجمان تلک سین تھا۔ غوریوں اورلودھیوں کے زمانہ میں ہندوبرہمن اورکائستھوں نے فارسی سیکھی اوران کواراضی کے نظم ،مالگزاری اوردیوان جیسے اہم مناصب پر فائز کیا گیا۔

غوری عہد کے بعد جوعہد شروع ہوا اس کوعہدسلطنت کہتے ہیں جس میں بہت سے خانوادوں نے حکومت کی ۔اس عہد میں فقہی حیثیت سے ہندووں یاغیرمسلموں کووہی درجہ دیا گیا جومحمد بن قاسم نے دیا تھا یعنی شبہ اہل کتاب کا ۔جیسا کہ پروفیسرشیث محمداسماعیل اعظمی نے لکھا ہے ۔ (۷) جب فقہی وقانونی طورپر ان کی حیثیت متعین ہوگئی توپھران کو درباروں میں اہم اورمختلف مناصب کا حصول آسان ہوگیا چنانچہ کائستھ اورپنڈت مالیات ،اراضی کے نظم ونسق،اورلگان ومالگذاری نیزدرباری اخراجات کے گوشوارے رکھنے کے انتظامات پر مامورہوئے۔

راجپوت زیاد ہ ترفوجی خدمات کے ليے چنے گئے چنانچہ ان میں رسالہ دار،منصب دار،سالاراورسپہ سالار ہوتے۔اورانہوں نے غزنویوں،غوریوں،خاندان غلاماں اورپھرمغل درباروں میں یہ خدمات انجام دیں۔عہد مغلیہ میں مغلوں اورراجپوت شاہی گھرانوں میں ازدواجی تعلقات بھی استوارہوئے ۔اورمغل دربارمیں ہندورانیاں،اورراج کماریاں آئیں جن کے محلات،مخصوص کمروں اوررہائش گاہوں میں مندرتک تعمیرکيے گئے مثال کے طورپر اکبرنے راجہ بہاری مل کی بیٹی جودھابائی سے شادی کی جومحل میں ہندوانہ طورطریقوں کے ساتھ پوری آزادی سے رہتی تھی۔

مختلف بادشاہوں،نوابوں اورامراء نے مندروں کی سرپرستی کی ان کوجاگیریں دیں مثال کے طورپر سلطان ٹیپونے ایک بڑے مندرکی سرپرستی کی اوراس کی تعمیرنوکرائی (جس کوخودایک ہندوحملہ آورنے نقصان پہنچا یا تھا) اورنگ زیب کے فرامین پنڈت بشمبرناتھ پانڈے نے ایڈٹ کرکے شائع کيے ہیں جن کا اردوترجمہ مولاناعطاءالرحمان قاسمی نے کیا ہے( ۸)

  رچرڈایٹن کی ایک کتاب ہندوستان میں ہندومندروں کے انہدام کے بارے میں ہے۔ Desecration of Temples in Muslim India اِس میں انہوں نے بتا یا ہے کہ محمدبن قاسم سے لیکراخیرمغلیہ عہد تک تقریبا اسی (80)مندرڈھائے گئے ۔ کس سلطان یاحاکم کے زمانہ میں کس ریاست اورکس پرگنہ میں اورکب یہ تباہ کيے گئے اس کا تفصیلی چارٹ انہوں نے دیاہے۔ان کا کہناہے کہ مندروں کایہ انہدام خالصتاً سیاسی وجوہ سے ہوا مذہبی اغراض کے ليے نہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ کئی مندرمغل سلاطین کی نگرانی وسرپرستی میں تعمیربھی کيے گئے تھے۔(۹)

مولانا شبلی نے اپنی کتاب اورنگزیب عالمگیرپر ایک نظرمیں ان ہندووں کے نام لکھے ہیں جواہم عہدوںپر فائزتھے خاص کرفوجی عہدے ومناصب ۔یہ تقریبا25 عہدے دارہیں جن میں بعض پنج ہزاری تھے بعض دوہزاری ،بعض سہ ہزاری اوربعض قلعہ دار،تھانے دار اور بعض گورنرا ور جاگیردار۔(10)

جنوبی ہند میں دولت آصف جاہی میں مہاراجہ سرکشن پرشاد مدارالمہمام یعنی ریاست کے وزیراعظم کے جلیل القدرمنصب پر فائزرہے اوران کا علم وادب کی سرپرستی کے ليے بڑامشہورہے۔ان کے علاوہ دوسرے ہندوامراءمیں یہ لوگ شامل ہیں: پنڈت لچھمی نرائن شفیق جوشاعربھی تھے ۔مہاراجہ بندولال،راجہ گردھاری پرشاد،رائے بالاپرشاد،رائے منالال،راجہ گوبند سنگھ وغیرہ یہ جنوبی ہند کے عمائداورامراءمیں شامل تھے۔ اکبری عہدمیں راجہ ٹوڈرمل ،راجہ بیربل اورراجہ مان سنگھ بڑے مشہورومعروف غیرمسلم امراءہیں جواس کے نورتنوں میں شامل تھے ۔بیربل کے قصے توزبان زدعام ہیںٹوڈدرمل وزیرمالیات تھے۔اورراجہ مان سنگھ توسپہ سالارفوج تھے۔جنہوں نے مغلوںکے ليے بہت سے قلعے سرکيے ،مان سنگھ کی سرپرستی میں برندابن کا گوونددیومندر1550میں تعمیرکیا گیا۔ اتنا ہی نہیں سب سے زیادہ بدنام محمودغزنوی کے لشکرمیں تین ہندوسرداربہت مشہورتھے یہ تھے سودندی رائے ،تلک اورہج رائے ،انہوں نے غزنویوں کی بہت سی مہموں میں حصہ لیا اورہمیشہ وفادارسمجھے جاتے ۔(۱۱)

جہاں تک ہندومذہب اورہندوثقافت کا تعلق ہے تومسلم عہد میں اورخاص کرعہدمغلیہ میں بہت سی سنسکرت کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا مثلا اکبرکے عہدمیں اتھروید کا ترجمہ ہوا،ملاعبدالقادربدایونی نے سنگھاسن بتیسی کا ترجمہ خردافزاء کے نام سے کیا،سنسکرت کی کتاب لیلاوتی اورمثنوی نل ومن کے ترجمے ہوئے۔ بھگوت پران کا ترجمہ ہوا۔ داراشکوہ نے اپنشد کا ترجمہ کیاوہ خودسنسکرت کاعالم تھا۔ بلکہ اس کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خودآدھاپنڈت تھا۔ داراشکوہ قادری صوفی سلسلہ سے وابستہ تھا، بہترین خطاط تھا،اس نے اسلام اورہندوستانی فکرپرایک کتاب لکھی تھی مجمع البحرین ۔اس کا ہندی میں ترجمہ سمدرسنگم کے نام سے موجودہے۔اس کے علاوہ اس کی ایک کتاب رگ وید کے ساتویں کھنڈ ویششٹھ کا ترجمہ بھی ہے۔ وہ نہ صرف صوفیاء سے بلکہ ہندوپنڈتوں اورجوگیوں سے بھی ملاکرتا تھا جن میں ویشنوگروبابالال،چندربھان برہمن،یادوداس،بنگالی داس جگن ناتھ پنڈت اورباباسرسوتی کے نام تاریخ نے محفوظ کيے ہیں۔(12)

عہدمغلیہ میں پینٹنگ اورمصوری کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ،ان کے درباری مصورین میں کھیم کرن،مہیش ،لال مکند،مادھو،پری ہنس رام ،جگن رام وغیرہ شامل ہیں۔ موسیقی کے متعدد ہندوماہرین کی سرپرستی دربارمغل کرتا تھا جن میں مان سنگھ گوالیاری ،نائک بخشو،تان سین اوررامداس کے نام تاریخ میں ملتے ہیں۔13)

اسی طرح عہدمغلیہ میں ہندوتہواروں اورمیلوں ٹھیلوں میں بھی حکمراں،شہزادے اورنواب شریک ہوتے تھے۔ جہانگیرتوخود ہندوتہواروںہولی دیوالی وغیرہ میں شامل ہوتا تھا اوراس کے عہد میں ہندووں کے میلے ٹھیلے تزک واحتشام سے منائے جاتے ۔ شیوراتری کے موقع پر پنڈتوں اور برہمنوں کودربار میں باریاب کیا جا تا۔ وہ خودراکھی باندھتا اوربندھواتا تھا ہمایوں بھی یہ تہوارمنا تا تھا۔ اس کے زمانہ میں جانک رائے ، سورج سنگھ آدربھٹا چاریہ وغیرہ کوانعامات ديے گئے۔ شاہجہاں کے عہد میں بھی یہ چیزیں جاری رہیں۔ اکبری دورمیں مصوری کوبڑی ترقی ہوئی ۔ بشن داس اورمنوہرعہدمغلیہ کے مشہورمصوروں میں سے ہیں۔ اس عہدمیں مہا بھارت اورراماین کے فارسی ترجموں کے مصورنسخے تیارکيے گئے جوآج بھی انڈیاآفس لائبری لندن میں موجودہیں۔ (14)ہولی دیوالی ،دسہرہ ،بسنت اورشیوراتری منائی جاتیں(15)نظیراکبرآبادی کی ہندوتہواروں پر کئی گئی نظمیں بہت مشہورہیں۔ وہ دیوالی کے بارے میں کہتے ہیں:

ہرایک مکان میں جلاپھردیادوالی کا                    ہرایک طرف کواجالاہوادوالی کا

سبھی کے دل میں بھا گیا سماں دوالی کا              کسی کے دل کومزاخوش لگا دوالی کا (16)

اسی طرح خدائے سخن میرتقی میربھی پیچھے نہیں رہے انہوں نے ہولی پر اشعارکہے:

جشن نوروزِہندہولی ہے        راگ رنگ اوربولی ٹھولی ہے (17) ۔

اورنگ زیب کے زمانہ میں اِن چیزوں میں کمی توضرور آئی مگراس نے بھی ہندووں کو حاشیہ پر نہیں ڈالا۔(18)

سترہویں صدی میں مغلیہ سلطنت سے ٹوٹ کربنگال،اودھ ،میسوراوردکن میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں دکن کی آصف جاہی سلطنت اورمملکت خداداد میسوردونوں بڑے کروفرکی اورقوت والی ریاستیں تھیں۔ میسورمیں آغازقیام سے اس کے اختتام تک ہندوبڑے بڑے عہدوں پر قائم رہے۔ سلطان ٹیپوکے بڑے وفادارسالاراورمنصب دارہندوتھے مثلاً پنڈت پورنیا تاریخ میں مشہورہیں۔ اودھ میں وزراءاورامراءوعماید میں بڑے پیمانہ پر ہندوشامل تھے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منشی نول رائے ،نواب صفدرجنگ کے بخشی

راجہ بینی پرساد مدارالمہام نواب شجاع الدولہ ،راجہ ٹکیٹ رائے نواب نصیرالدولہ کے دیوان ،امرت لال : پیش کارنواب غازی الدین حیدر

منشی جوالاپرشاد منشئی الممالک نواب نصیرالدین حیدر،راجہ رتن سنگھ زخمی فارسی کے شاعر،راجہ لکھپت رائے تحصیل دار

راجہ لکشمی نرائن معتمد برہان الملک ،راجہ پورن چند مسجل(رجسٹرار) نواب شجاع الدولہ

مسلمان اہل علم ودانش بھی اس بات کوسمجھتے ہیں کہ مسلمانوں اوربرادران وطن کے درمیان مفاہمت کی شدیدضرورت ہے ۔ اسی وجہ سے علماء دیوبند اوران کی سیاسی جماعت جمعیة علماء ہند نے مسلم لیگ کی تقسیم وطن کی سیاست سے کھلااختلاف کیا بلکہ دونوں قوموں میں مفاہمت اوررواداری کے ماضی کے بہت سے ان واقعات کی تائید بھی سرکردہ علماء دیوبند نے کی جن کی عموماً بڑی مخالفت کی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر اکبربادشاہ کی کارروائیوں کی چنانچہ مولاناحسین احمدمدنی فی الجملہ اکبرکی تائیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مگرشاہان مغلیہ کوضروراس طرف التفات ہواخصوصاً اکبرنے اس خیال اوراس عقیدہ (یعنی یہ کہ مسلمان ہندووں کے دشمن ہیں) کوجڑسے اکھاڑناچاہا اوراگراس کے جیسے چند بادشاہ اوربھی ہوجاتے یاکم ازکم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے دی جاتی توضروربرہمنوں کی یہ چال (پروپیگنڈا کہ مسلمان ہندوکے دشمن ہیں)مدفون ہوجاتی اوراسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے ۔اکبرنے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندوذہنیت اورمنافرت کی جڑوں کوکھوکھلا کردیا تھا۔“(19)

یہ بات صحیح ہے کہ مورخ ضیاءالدین برنی نے بہت سی ایسی متعصبانہ باتیں لکھی ہیں جن کوپڑھ کریقینا ہندووں کواشتعال آئے گااسی طرح بعض علما مثلاعلاءالدین خلجی کے درباری عالم قاضی مغیث نے بھی انتہاپسندی اورکج فہمی کا ثبوت دیا ہے ۔آج اس قسم کے بیانات کولیکرمسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انٹیلیکچول مہم ہندتواکے علمبرداروں کی طرف سے چل رہی ہے جس کامقصد ہند اسلامی تہذیب کومسخ کرکے پیش کرناہے اورانتہا یہ ہے کہ یہی مسخ شدہ تاریخ اب اسکولوں میں پڑھائی جانے لگی ہے جس سے مذہبی منافرت کواورزیادہ ہوامل رہی ہے ۔اس تناظرمیں اِس طرح کے پروگراموں کے انعقاد کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے۔

حواشی وحوالجات

۱۔ سیدسلیمان ندوی ،عرب وہند کے تعلقات ،دارالمصنفین اعظم گڑھ

۲۔ لغات جدیدہ دارالمصنفین اعظم گڑھ اورعرب وہند کے تعلقات ،دارالمصنفین اعظم گڑھ ص۲۷

۳۔ چچ نامہ ص 116حجاج بن یوسف کی نصیحتیں محمدبن قاسم کے ليے )

4- ۔شمس تبریزخاں،عربی ادب میں ہندوستان کا حصہ مجلس صحافت وونشریات اسلام لکھنو

(5)ملاحظہ ہوسیدصباح الدین عبدالرحمن ہندوستان کے عہد ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری ص ۲۵ )

(6۔ مقالات شبلی ص۵۲ جلد6،طبع دارالمصنفین اعظم گڑھ

7۔ ملاحظہ ہو:شیث محمداسماعیل اعظمی ،عہدسلطنت میں ہندوکی شرعی حیثیت مکتبہ جامعہ لمیٹڈدہلی

۸۔ اورنگ زیب کے فرامین ،بشمبرناتھ پانڈے ترجمہ عطاءالرحمن قاسمی

۹۔دیکھيے :Temple Desecration and Indo-Muslim states P.94 Essays on Islam and Indian History Richard M Eaton Oxford University Press 2002

10- شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیرپر ایک نظرمیںدارالمصنفین اعظم گڑھ

۱۱۔ پالیٹکس ان پری مغل ٹائمزڈاکٹرایشورٹوپا ص 45-46 بحوالہ ،سیدصباح الدین عبدالرحمن ہندوستان کے عہدماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری

Dara Shikoh,the Emperor who Never was (1592-1666)by Supria Gandhi -12 

کتاب کے علاوہ اسی عنوان سے ان کا یوٹیوب پر لیکچربھی موجودہے جس کوکاروان انڈیانے نے ہوسٹ کیاتھا۔

13)سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ص 456-450 تمدنی جلوے)

14)سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ص 485- 486 تمدنی جلوے)

15)ص 400 تا407 ایضا)

(16)سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ 2009ص405ایضا)

(17)سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ 2009ص 407

۔تفصیل کے ليے دیکھيے سید صباح الدین عبدالرحمن عہد وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص 485-486) (18)دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ 2009

19- ملاحظہ ہو,مکتوبات شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی جلد اول مرتبہ مولانانجم الدین اصلاحی مطبوعہ درمطبع معارف اعظم  گڑھ 1952

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x