پروفیسریٰسین مظہرصدیقی کی یاد میں

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ٭

یادش بخیرکوئی پچیس سال ہوتے ہیں راقم جامعة الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ میں فضیلت کا طالب علم تھا۔ جامعہ کے ادارہ علمیہ نے ایک علمی مذاکرہ ”مدارس اسلامیہ کے نصاب میں اصلاح “جیسے کسی موضوع پرکیا تھا۔ پہلے سیشن میں مولانا سلطان احمداصلاحی نے اپنے مقالہ میں دارالعلوم دیوبند،ندوة العلماء،مدرسة الاصلاح ،جامعة الفلاح اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سب پر تیزوتند مگرمدلل تنقیدکرڈالی ،مقالہ ختم ہوتے ہی ایک اورفاضل کھڑے ہوئے اورفاضل مقالہ نگارکی تنقیدوں پراعتراضات کی دندان شکن بوچھارکردی۔ یہ دوسرے فاضل تھے ہمارے ممدوح پروفیسریاسین مظہرصدیقی جواس وقت غالباً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اسلامک اسٹڈیز کے چیرمین تھے۔ یہ پہلی بارتھاجب ان کودیکھااورسنا۔زمانہ کے گرم وسردسے گزرتے ہوئے چند سال بعدراقم لکھنوکے ایک مجوزہ علمی وفکری ادارہ (مرکزاعدادالدعاة)سے وابستہ ہوا،جس کے داعی ومحرک تھے راقم کے مربی ومحسن مولانا ظہیراحمد صدیقی ندوی (حال چیرمین فاونڈیشن فارسوشل کیر لکھنو)۔اسی مرکزکے مجوزہ تعلیمی وتربیتی خاکہ کولیکرعلی گڑھ میں واردہوا۔طلبائی تحریک سے وابستگی کے دوران مختلف حیثیات میں علی گڑھ کئی بارآنا جانا ہواتھا لیکن ان میں زیادہ ترمصروفیت طلبہ سے ملاقاتوں اوران کے پروگراموں میں شرکت تک محدودرہی ۔اب کی علی گڑھ کے ممتازاسکالروں اوردانشوروں سے رابطہ واستفادہ اورتبادلہ خیالات پیش نظرتھا۔ چنانچہ اپنے کرم فرما ڈاکٹرمحمد ذکی کرمانی کے دفتر(واقع احمد نگر)(۱)میں قریبا۵ دن قیام رہا۔اوراِس دوران مختلف علمی ہستیوں اور شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں پروفیسرظفرالاسلام اصلاحی ، پروفیسر اشتیاق احمدظلی(حال ناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ ) ،پروفیسرعبدالعظیم اصلاحی، مولانا سید جلال الدین عمری،مولانارضی الاسلام ندوی، مولاناسلطان احمداصلاحی (مرحوم) اور پروفیسریٰسین مظہرصدیقی وغیرہم بھی شامل تھے۔ راقم کے ترتیب ديے ہوئے مجوزہ تربیتی خاکہ کوانہوں نے دیکھا مگر اس پر کوئی نقد یا اضافہ نہیں کیا۔بلکہ علی گڑھ میں کسی نے بھی نہیں کیا نہ اس کوبہت سنجیدگی سے لیا۔اندازہ ہواکہ علی گڑھ کے صاحبان علم سے استفادہ کی شکل سیمینار ہوسکتاہے ، یہ حضرات سیمیناروں کے مشاق ہیں اورروٹین ورک کے پابند و خوگر۔

رجحان عام سے ہٹ کریا ٹریک سے ہٹ کرکام کرنا پسند نہیں کرتے۔ البتہ علی گڑھ ہی کے ایک نامورفرزند پروفیسرنجات اللہ صدیقی ( ۲)کی طرف سے ہمارے اس مجوزہ منصوبہ پر سب سے موثر،جچا تلا تنقیدی تبصرہ آیا۔ جس سے اندازہ ہواکہ اپنے میدان اختصاص کے ساتھ ہی عالمی فکراسلامی میں موجودہ رجحانات کیا چل رہے ہیں اُس سے محترم نجات اللہ صاحب کی براہ راست اورگہری واقفیت قابل رشک ہے ۔ بہرکیف یہ پروفیسرصدیقی سے راقم کا دوسراسابقہ تھا۔

مختصرسوانحی کوائف: یاسین مظہرصدیقیی یوپی کے ضلع لکھیم پوری کھیری کے ایک گاوں میں پیداہوئے ۔آپ کے والد کا نام مولوی انعام علی تھا جن کا ذکرخیربڑے بلندالفاظ میں ہمیشہ کرتے تھے اوران کوباباجان کے نام سے یاد کرتے۔ ابتدائی تعلیم گاوں کے مدرسہ حیات العلوم سے حاصل کرکے دارالعلوم ندوةالعلما سے عا لمیت کی ،لکھنویونیوسٹی سے فاضل کا کورس کیا۔ پھرجامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہائی اسکول،انٹراوربی اے کیا۔ماسٹرزاورپی ایچ ڈی کے لبے علی گڑھ کا رخ کیاپھریہیں کے ہورہے اورجہان سرسیدکوہی اپنا وطن ثانی بنالیا۔علی گڑھ میں شعبہ تاریخ میں ایم کیا اوراسی شعبہ سے پی ایچ ڈی بھی کی۔( ۳) تاہم ندوہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامیات ہی آپ کی جولان گاہ بن گئی تھی۔ اس میں بھی خاص کرسیرت نبوی کے مختلف گوشوں پر بحث اورمتنوع جہات کومنورکرنے کی توفیق حاصل ہوئی ۔ بیسویں صدی اسلامی روایتی علوم کی نشاة ثانیہ کی صدی ہے۔ اس میں حدیث،تفسیر،فقہ وسیرت پر گراںقدرکام انجام ديے گئے۔ فن سیرت میں پروفیسرصدیقی نے خاص شہرت حاصل کی اوران کا شمارصف اول کے سیرت کے عالموں میں کیاجاتاہے۔ہندوستان کویہ شرف حاصل ہے کہ شبلی و سلیمان کے بعد ڈاکٹرمحمد حمیداللہ اورپروفیسریٰسین مظہرصدیقی جیسے محققین سیرت کا تعلق اسی سے رہاہے۔

ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی کی علمی خدمات میں سب سے ابھراہوااورنمایاں پہلوان کا سیرتی لٹریچرکا گہرامطالعہ ہے۔اسی مطالعہ سے انہوں نے’ رسول اکرم کی رضاعی مائیں‘،’معاش نبوی ،’مکی اسوہ نبوی اورمسلم اقلیتیں‘،’خواتین عہدرسالت میں ۔ایک سماجی مطالعہ‘ اور”عہدنبوی کا نظام حکومت “وغیرہ جیسے علمی تحفے دنیائے تحقیق کوديے۔وحی حدیث ،”سنتوں کا تنوع “اورمختلف علمی موضوعات پر مقالات ان کے علاوہ ہیں۔ قدیم سیرت نگاروں ابن سعد،ابن اسحاق ابن ہشام ،واقدی ،ابن سیدالناس ،حلبی ،قاضی عیاض،طبری ،ابن کثیر اوراردومیں سیرت النبی شبلی وسلیمان وغیرہ کے متون کا تحقیقی مطالعہ ،ان کا محاکمہ اوران کے بارے میں تجزیاتی رائیں دینایہ ان کا خاص موضوع تھاجس پر ان کی تحقیقی کتاب” مصادرسیرت نبوی “شائع کردہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی شاہدعدل ہے۔(4)

مکی اسوہ نبوی اورمسلم اقلیتیں:پروفيسرياسين مظہر صديقی عہدجديدمیں سيرت کے ايک بڑے اسکالرہيں ،آپ کی تحريروں ميں نہ صرف بھرپورمعلومات اورتحقيق ہوتی ہے بلکہ گہرا تجزيہ بھی پاياجاتاہے ۔مکی اسوہ نبوی اورمسلم اقلیتيں دراصل موجودہ دورکی مسلم اقلیتوں کے ليے جوکل عالمی مسلم آبادی کا 40 فیصد ہیں،ان کے ليے رول ماڈل اورعملی نمونہ عمل کی وضاحت ہے۔اس ليے موجودہ دورکے ليے بڑی معنویت رکھتی ہے ۔اوراسی اہمیت کے پیش نظراس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہوگیاہے ۔(۵)یہ کتاب مکی زندگی کے متعلق بہت سی نئی باتیں جوبہت کم معلوم ہیں ،سامنے لاتی ہے ۔اس کتاب کے مطابق مکہ ميں نبی ﷺ نے غيرمسلموں سے وہ تمام تعلقات رکھے جو کسی بھی انسانی سماج ميں معمول بہ ہيں۔ آپﷺ نے سےاسی قبائلی نظام ميں شرکت کی آپ نے قبائلی نظام تحفظ سے استفادہ کيا ۔ آپ نے غيرمسلموں کی دعوت طعام ميں شرکت کی ۔ خود آپ نے ان کو دعوت دی مکہ ميں بعض مسلمانوں کے غيرمسلموں سے شخصی مفادات کے تحفظ کے معاہدہ کا ذکربھی ملتاہے۔(6)صديقی صاحب کے مطابق مکہ میں بعض صحابہ کرام مکہ ميں خدمت خلق بھی کرتے تھے چنانچہ حضرت نعيم بن عبداللہ النحام عدوی اس ميں ممتاز تھے اورجب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کےاتو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ وہ جس دين پر رہناچاہيں رہيں مگرمکہ کو نہ چھوڑيں۔ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کياتومشرکين مکہ ان پر پل پڑے جن سے ايک مکی سردارعاص بن وائل سہمی نے آکربچايا ۔آپ نے سیرت کی قدیم کتابوں کے حوالہ سے مزیدلکھاکہ مکی زندگی میں آپ ﷺ نے غيرمسلموں کا جِوار بھی حاصل کيا۔(7)آپ ﷺ نے غيرمسلموں کو ہدايابھی ديے ۔اورايسی بھی متعدد مثاليں موجود ہيں کہ غيرمسلموں نے آپ ﷺ کی اورصحابہ ؓ کی مختلف انداز سے امداد کی مثلاابوطالب اوربنی ہاشم کی نبی ﷺ کی حمایت اوراس راستہ ميں تمام مشکلات کو برداست کرنا سيرت کا ايک معروف واقعہ ہے۔ابوسفيان نے رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زينب کو ہجرت ميں مدد دی۔حضرت ام سلمہؓ کو عثمان بن طلحہ عبدری نے مدينہ پہنچايا ۔حضرت ام سلمہ ان کے اس احسان کو ہميشہ ياد رکھتيں اوران کی شرافت ،حلم وکرم کی تعريف فرماتيں۔   اسی طرح آپ نے بتایاکہ سيرت کی کتابوں ميں يہ ملتاہے کہ ۹ نبوی ميں طائف سے واپسی کے بعدآپ ﷺ نے تقريبا 16قبائل سے ملاقاتيں کرکے ان کے سامنے اسلام پيش کرنے اوراسے قبول کرنے کی دعوت کے علاوہ يہ بھی پيش کش کی کہ وہ آپ ﷺ کو اپنے علاقوں ميں لے جائيں۔آپ کی حفاظت وحمايت کامعاہدہ اوروعدہ کريں تاکہ آپ دين کی دعوت تمام لوگوں تک پہنچاديں ان تمام قبائل نے آپ کی بات سنی ،بعض نے عذرپيش کيا،بعض نے سردمہری برتی اوربعض نے سودے بازی کی کوشش کی ۔حديبيہ کے موقع پر احابيش اوران کے سردارنے رسول اکرم کے سفيرحضرت خراش بن اميہ خزاعی کو قتل کرنے کے ارادہ سے قريش کو بازرکھاتھا ۔ حکيم بن اميہ سلمی نے اپنی قوم کو رسول اکرم کی عداوت سے بازرکھنے کی کوشش کی اوراس کے ليے شعرسے بھی کام ليا ۔غرض اس کتاب کا مواد ہندوستان اورامریکہ وغیرہ جیسے ممالک کے مسلمانوں کے ليے مشعل راہ ہے۔اسی وجہ سے ہم نے اس کے تذکرہ میں درازنفسی سے کام لیاہے۔

عہدنبوی کا نظام حکومت : یہ پروفیسرصدیقی کی بہت اہم کتاب ہے اورغالباً ان کی ابتدائی تصنیفات میں سے ہے۔اورپہلے انگریزی میں شائع ہوئی پھراردو میں منظرعام پر آئی ۔اِس میں مصنف نے بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ عہد نبوی میں کیسانظام اجتماعی قائم کیا گیا تھا،تعلیم کا نظم کیا تھا،سوق یامارکیٹ کوکس طرح چلایاجا تا تھااس کے افسران بکارخاص کون صحابہ تھے۔ سفراءصحابہ کون تھے۔مزید برآں میثاق مدینہ کا تفصیل سے تجزیہ کیاہے۔اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اطراف میں آباد کفار،اعراب اوریہود سے کیا کیا معاہدے کيے تھے۔آپ کے غزوات وسرایاکے مقاصد کیاتھے ،زکوة اورمالیات کا نظم کیسے چلایا جاتا تھا۔آپ کے نظام مشاورت میں کون کون صحابی تھے اورعمال نبوی کون کون وغیرہ ۔پروفیسرصدیقی بہت جزرسی کے چیزوں کودیکھتے ہیں اورسیرت کی معروف کتابوں سیر ت ابن اسحاق ،ابن ہشام ،سیرت حلبی ،ابن سیدالناس نیزبلاذری ،اصابہ ،الاستیعاب لابن عبدالبرکے علاوہ ، ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،سیرت النبی شبلی وسلیمان وغیرہ سے بھرپوراستفادہ کرتے ہیں۔ جہاں سیرت نگاروں کے بیانات میں اختلاف وتضادنظرآتا ہے وہاں محاکمہ کرتے ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ کتب حدیث سے بھی مدد لیتے ہیں اورروایت ودرایت کی روشنی میں مختلف واقعات کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بسااوقات وہ کتب حدیث کے بیان پر اہل سیرکے بیانات کوترجیج دیتے ہیں اورکبھی اس کا عکس بھی ہوتاہے۔اس کے علاوہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں مختلف اسلامی مصنفین سے جہاں ان کواختلاف ہوتاہے اسے بیان کرتے ہیں اوراس کی وجوہ ترجیح بھی بتاتے ہیں۔ یہ کتاب بھی پہلے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی سے شائع ہوئی ۔کتاب کے صرف حواشی وحوالجات ہی تقریبا تین سوصفحات میں آئے ہیں(8)اسی کتاب کے تسلسل میں انہوں نے ”تاریخ تہذیب اسلامی “لکھی جس کی پہلی جلدمیں عہد نبوی اورعہدخلافت راشدہ کوکوَرکیاہے اوردوسری جلدمیں خلافت عبداللہ بن زبیرسے لیکرخلافت بنوامیہ وغیرہ کولیاہے۔

ڈاکٹرصدیقی کا ایک اورکارنامہ جس کا ان کے نام لیوااوروابستگان وشاگردان بھی کوئی تذکرہ نہیں کرتے وہ بعض مطعون حضرات صحابہ کرام اورخلافت بنی امیہ کا دفاع ہے۔چنانچہ وہ سیدنا معاویہ بن سفیان،خود حضرت ابوسفیانؓ،حضرت عمروبن العاصؓ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓکا نیزخلافت بنوامیہ کا عمومی دفاع کرتے ہیں اوراس کے سلسلہ میں مورخین اورخاص کراردوکے مورخین کی بدگمانیوں اورغلط پروپیگنڈوں کا جواب دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی کتاب خلافت امیہ۔ خلافت راشده کے پس منظرمیں( شائع کردہ الفہیم مﺅ)آتی ہے۔ یہ کتاب اثباتی ہے ۔اس خلافت کے ابتدائی دور(خلافت معاویہ ویزید)کے جوازوصحت پر صاحب کتاب کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ان حضرات کی سائڈ میں صحابہ کرام کی خاصی بڑی جمعیت تھی جن میں بعض اکابرصحابہ بھی ہیں۔ اِن صحابہ کرام نے اس خلافت میں مختلف مناصب قبول کيے ،وہ اس میں عامل وامیررہے اورمختلف ذمہ داریوں پر فائزان کی تعداد تقریباً 250 ہوجاتی ہے۔ مصنف نے ان تمام صحابہ کے نام،مختصرحالات اوران کے عہدے ومناصب وغیرہ سب اس کتاب میں جمع کرديے ہیں۔استدلال یہ ہے کہ اگریہ خلافت صحیح اورجائزنہ ہوتی تواتنی بڑی تعداد میں صحابہ کرام اِس کی بعض ناہمواریوں اوربے اعتدالیوں کے باوجود اس کی حمایت وخدمت نہ کرتے۔بظاہر معقول اوردرست استدلال ہے لیکن کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔ کیونکہ فریق مخالف اس کی بآسانی توجیہ کرلیتا ہے کہ یہ صحابہ کرام اورتابعین سیدنا حسینؓ کے اقدام کی ناکامی کے بعدیہ سمجھ چکے تھے کہ خلافت امیہ اب ایک ناگزیربرائی بن چکی ہے اِس کوسردست مستردنہیں کیاجا سکتا اس ليے اس کے ساتھ تعاون کیاجانا چاہيے-

زیادہ اہم پہلویہ ہے کہ مورخین ہی نہیں حدیث کے ذخیرہ میں بھی ایسی خاص روایتیں موجودہیں جوسیدنامعاویہ ،سیدنامروان اوریزید سب کومجروح کرتی ہیں اوران میں سے بعض توصحیحین میں بھی ہیں۔ ضرورت تھی کہ اِن روایات کی ایک ایک کرکے تحقیق کی جاتی ۔

اِس کی ابتداجناب محموداحمدعباسی نے کی تھی اوراس کے بعداوربہت سے لوگوں نے ا س پر کام کیاہے۔ میرے والدمرحوم علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی نے اپنی کتاب ”شہادت عثمان کا تاریخی پس منظر“میں اوردوسری کتابوں میں اس قسم کی بعض روایات پر تحقیقی کلام کیاہے۔( 9)اصل بات یہ ہے کہ فن حدیث پر عبور،رواة وائمہ حدیث اورکتب حدیث پر تحقیقی نظراس کے ليے ضروری ہے اوریہ بہت ہی زیادہ وقت طلب،پتہ ماری ،ممارست اورمزاولت کا کام ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ علم حدیث میں جن اکابروبزرگوں کا پایہ وسیع ہے اتناہی مشاجرات صحابہ کے بارے میں ان کا رویہ تحقیقی ،علمی اوراعتدال پرمبنی اورخوش عقیدگی سے مبراہوتاہے،اِس سے بعض مستثنیات ہوسکتے ہیں۔اِس پہلوسے پروفیسرصدیقی زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتے۔ لیکن اس کتاب سے اصل خدمت یہ ہوئی کہ سینکڑوں صحابہ کرام کے تحقیقی حالات مختصراً اردومیں آگئے۔

ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی کا تیسراکارنامہ” رسول اکرم اور خواتین ۔ایک سماجی مطالعہ” ہے۔ان کے سیرتی کاموں میں ہی اس کا بھی شمارہوناچاہيے مگراِس کا عام طورپر تذکرہ نہیں آتااوراگرآتابھی ہے توبہت کم ۔کیوںکہ یہ کتاب اپنے مشمولات سے خواتین کے بارے میں ہمارے مذہبی ذہن کے سراسرخلاف جاتی ہے اس ليے اس کا نام بہت کم لوگ لینے کی جرات کرتے ہیں۔

اصل میں برصغیرمیں خواتین کے تعلق سے مذہبی حلقہ میں خاص طورپر حد سے بڑھی  ہوئی  اورمبالغہ کی حدتک حساسیت پائی جاتی ہے جس کا ردعمل اب خواتین کی طرف سے بے محابا ہورہا ہے۔ بعض مذہبی حلقوں کا کہناہے کہ عورت کا معنی ہی (چھپانے کی چیز(عورة) ہوتاہے)لہذااس کومکمل طورپر پنجرہ میں بندکرکے ہی اِ س مذہبی حساسیت کی تسکین ہوپاتی ہے۔ دل چسپ یہ ہے کہ قرآن کریم عورت کے ليے عورة نہیں بلکہ نساءیاامراة کے الفاظ استعمال کرتاہے۔ کبھی کبھی تواس موضوع پر اس قسم کے لوگوں کی تحریروں سے گمان ہوتاہے کہ گویااللہ ورسول کواس بارے میں حکم دیتے ہوئے اِن حضرات سے مشورہ لینا چاہيے تھا۔ قرآن کے احکام ستروحجاب کی تفصیل میں لکھنے والوں اورخاص کرمفتیان کرام نے اپنی طرف سے بہت کچھ اضافے کرڈالے ہیں۔ جواصل میں برصغیر کی تہذیبی رسوم ورواج کا شاخسانہ ہیں اورمعاشرہ میں اِن تعبیروں کی ہیبت ایسی ہے کہ اِنہیں کواصل سمجھا جاتا ہے ۔ اوراس پر کوئی نئی تحقیق پیش کرنے والوں پر فوراً مغربیت کے دلدادہ ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔اس مسئلہ میں راسخ العقیدہ حلقہ میں عصرحاضرکے معروف محدث علامہ ناصرالدین البانی نے نئی تحقیق پیش کی ۔( 10 )اس کے بعدالاخوان المسلمون کے شیخ محمدالغزالی اورشیخ عبدالحلیم ابوشقہ نے ۔برصغیرمیں مولانامودودی رحمہ اللہ نے حقوق الزوجین میں عورتوں کے جائزحقوق کی بات کی لیکن ”پردہ“ میں آکرانہوں نے اس کوایک حدتک رِورس کردیا۔ یسین مظہرصدیقی حالانکہ فقہی طورپر خاصے متصلب حنفی تھے مگراس معاملہ میں انہوں نے بھی روایتی تصورات کوتوڑدیاہے۔

”سماجی مطالعہ“ میں انہوں نے ثابت کیاکہ رسول اللہ ﷺ اورصحابہ وصحابیات کے مابین مکمل نارمل سماجی میل ملاپ پایاجاتا تھا۔آپ ا ن کے گھروں میں نارملی آتے جاتے تھے۔اسی طر ح صحابیوں اورصحابیات کا باہمی نارمل تعامل تھا۔چہرہ کا کوئی پردہ نہیں تھاہاں اسلامی آداب کا پوراخیال رکھا جا تا تھا۔مگرایسی کوئی حساسیت نہ تھی جوموجودہ مذہبی لٹریچرمیں ظاہرکی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابیات کے مابین یہ نارمل انسانی تعامل پردہ کے احکام سے پہلے بھی تھااوران کے نزول کے بعدبھی جاری رہا یعنی مکی اورمدنی دونوں ادوارحیا ت میں۔صدیقی صاحب نے احادیث اورواقعات کاتجزیاتی وسماجیاتی مطالعہ پیش کرکے اپنی رائے کومبرہن وموکد کیا ہے۔راقم کے علم کی حدتک ان کے استنباطات واستنتاجات سے کوئی علمی اختلاف ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے۔البتہ ان کی کتاب پر ترجمان القرآن میں تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرانیس احمد نے جوسوالات اٹھائے وہ زیادہ تراصل بحث سے تعلق ہی نہیں رکھتے ان کا تعلق اصلاسدذریعہ سے ہے۔ مولانامودودی اورشیخ ناصرالدین البانی کے مابین حجاب کے مسئلہ پر مراسلت میں بھی مولاناکی دلیل یہی سدذریعہ کا اصول تھا۔

پروفیسریاسین مظہرصدیقی کی نگارشات سیرت کوخصوصی طورپر پاکستان میں بڑی پذیرائی ملی۔ شروع میں مشہورزمانہ رسالہ’ نقوش‘ میں انہوں نے سیرت پربہت لکھا۔ان کونقوش ایوارڈ بھی ملا۔نقوش کے بانی مدیرجناب محمدطفیل مرحوم سے ان کے بڑے محبت بھرے تعلقات قائم رہے ۔اس کے بعدان کے پاکستان کے مسلسل اسفارہوتے رہے کیونکہ ان کی ہمشیرہ بھی وہیں رہتی ہیں ۔ سیرت سے متعلق ان کی کئی کتابیں پاکستان سے چھپیں۔ اس کے علاوہ وہاں کے سیمیناروں اورمذاکروں میں وہ باربارمدعوکيے جاتے علمی اداروں میں ان کے خطبات اورتقریریں ہوتیں۔ایک سفرمیں راقم کوبھی ان کی رفاقت کی سعادت ملی اوروہاں ان کی محبوبیت ومقبولیت کا خوب خوب مشاہدہ ہوا۔یہ سفر 26 تا28 مارچ 2011 کوانٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکی سیرت کانفرنس میں شرکت کے ليے ہواتھا۔

فکرواسلوب بیان: فکری طورپر یاسین مظہرصاحب دبستان شبلی کے خوشہ چیں ہیں اورندوة العلماءکے منہج اعتدال سے وابستہ ،مسلکی تشددسے دورونفورتاہم وہ تصوف اوراہل تصوف کے بڑے قائل معلوم ہوتے ہیں۔اورنورمحمدی جیسے مضامین میں شاہ ولی اللہ دہلویؓ کے رجحان تصوف کی طرف ان کا میلان خاصا معلوم ہوتاہے۔ وہ اس قسم کے روحانی وباطنی امورکے ليے شاہ ولی اللہ کا ہی حوالہ دیتے ہیں۔(11)گرچہ کئی جگہوں پر اختلاف بھی کرتے نظرآتے ہیں۔تاہم معاصرعلما ومفکرین کا ان کا مطالعہ بہت محدودہے۔یہی وجہ ہے کہ مولاناوحیدالدین خان اورجناب جاویداحمدغامدی پر ان کا اندازِتنقیدبہت تنداورجارحانہ ہے۔اوربتاتاہے کہ دونوں حضرات کی فکروتحریروں سے وہ براہ راست واقف نہیں بس سنی سنائی باتوں پر تنقیدکرڈالتے ہیں۔(12)

صدیقی صاحب کی علمی نگارشات کا اسلوب بڑاخشک اوربوجھل ہے۔وہ اپنے جملوں میں اضافت کا بے محابااستعمال کرتے تھے اوراتنی کثرت سے کرتے تھے کہ بعض مرتبہ عبارت سقیم اوربھونڈی ہوجاتی ہے۔ان کی نگارشات پڑھی جاتی ہیں نئے مضامین ،جدت طرازی ،اورنئی اوراچھوتی تحقیقات کے ليے لیکن اسلوب بیان راقم کی نگاہ میں دبستان شبلی سے یکسرہٹاہوابلکہ عام ندویوں کی تحریروں سے بھی الگ اوردشوارہے۔البتہ شخصیات واساتذہ پر جوخاکے اورتاثراتی مقالے انہوں نے لکھے ہیں وہ زبان وبیان کی غلطیوںکے باوجودلطیف طنزومزاح سے بھرپوراوربڑی حیویت ونشاط رکھتے ہیں۔

پروفیسریاسین مظہرصاحب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے اساتذہ کوہمیشہ یادرکھتے اوران کے لےے دعائیں کرتے تھے۔ان کے ملفوظات ،اقوال اوران کے لطائف کا بڑاذخیرہ ان کویاد تھااوراپنی مجلسوں میں ان کوتازہ کرتے رہتے تھے ۔یہ مقالات زیادہ ترتاثراتی ہیں اوران میں انہوں نے مزے لے لے کرمزاحیہ اندازمیں اپنے استادوں کویاد کیا ہے۔ان کا بہترین خاکہ اورتاثراتی مضمون مولانامحمداسحق صدیقی سندیلوی ندوی پرہے۔ مولانااسحاق صدیقی ندوی دارالعلوم ندوةالعلماءکے بڑے اساتذہ میں سے یعنی نائب مہتمم وشیخ الحدیث تھے ،اورصدراول کی تاریخ پر بڑی محققانہ نظررکھتے تھے۔اورروایات وآثارکی چھان پھٹک کے بعد وہ سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اوردیگراموی حضرات کے بارے میں عام روایت سے ہٹ کرسوچتے تھے اورمنصفانہ نقطہ نظرکے وکیل بن گئے۔جبکہ مسلمان مورخین بطورخاص اردوکے بنوامیہ سے ایک خاص پرخاش رکھتے ہیں اورمولاناابوالحسن علی ندوی کا بھی اس معاملہ میں استثناء نہ تھا۔ ندوہ میں انہیں کا سکہ چل رہاہے، اس ليے جواساتذہ یاطلبہ بنوامیہ پرقدح کرنے والی کسی روایت پر سوال کھڑاکرتے وہ زیرعتاب آجاتے ،مولانااسحاق صدیقی ندوی اسی فکری چشمک کا شکارہوئے اوران کوندوہ سے جاناپڑا۔ان پراپنے تاثراتی مضمون میں مولانایاسین مظہرصدیقی نے اس داستان کولطیف پیرایہ میں بیان کیا ہے ۔ مولانااسحاق صاحب کی اس سلسلہ میں کتاب اظہارحقیقت بہت معروف ہے جومولانامودودیؓ کی خلافت وملوکیت کے تعاقب میں لکھی گئی تھی ۔ (13)

بلاشبہ مولاناسیدابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاں ندوی فی زمانہ ندوة کے گل سرسبدہیں۔ وہ مولانایاسین مظہرکے بھی استاد تھے۔ چنانچہ ان کی وفات پر یاسین صاحب نے تاثراتی مقالہ لکھااوربلندالفاظ میں ان کوخراج عقیدت پیش کیااوربعض مواقف پر اپنے اختلاف کا بھی تذکرہ کیا بلکہ ایک جگہ توان کوتاریخ میں شیعیت سے متاثرتک قراردے ڈالا۔(14)مولاناعبدالسلام قدوائی ندوی کوبھی انہوں نے یاد کیا ہے۔ یہ جامعہ ملیہ میں یسین مظہرصاحب کے استادوسرپرست رہے،ان پربھی ایک جاندارمقالہ تحریرکیا ہے۔ مولانا قدوائی ندوی اپنے دروس قرآن اورقرآنی عربی کی تدریس کے ليے مشہورتھے ۔ان کوندوہ العلماءکا معتمدتعلیمات مقرر کیا گیا تھا۔اس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ وه ندوہ کے نصاب کواپ ٹوڈیٹ کرناچاہتے تھے مگرمولاناعلی میاں(ناظم ندوہ)نے ان کوایسا نہیں کرنے دیا۔عربی زبان کوایک زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھانے کے ليے اوراس لحاظ سے ندوہ کے نصاب ونظام میں تبدیلیاں لانے کا کریڈٹ تومولاناعلی میاں کویقینا جاتا ہے ،مگرصرف عربی ادب کی حدتک ۔افسو س کہ ندوة میں جمع بین القدیم والجدید کا نعرہ بس ایک نعرہ ہی بن کررہ گیا اوراب تووہ دیوبند کا ایک ضمیمہ معلوم ہوتا ہے ۔(15)

پروفیسرخلیق احمدنظامی علی گڑھ میں شعبہ تاریخ کے استاداورصدرشعبہ تھے اورنام وراسکالرتھے جن کی نظرمشائخ چشت پر بڑی وسیع تھی۔اب ان کی یادمیں یونیورسٹی میں ایک قرآن سینٹربھی کام کررہاہے۔پروفیسرصدیقی نے اپنے ناموراستاد نظامی صاحب کے اوپرایک بڑامفصل اورجاندارمقالہ لکھاہے۔اوران کی خوبیوں وخامیوں کا تذکرہ کیا ہے نیز یونیورسٹی ملازمت اورشعبہ کی نظامت اوراس کی باریکیوں،شعبہ جاتی سیاست اورنزاکتوں پر گہری نظرڈالی ہے۔ حالانکہ نظامی صاحب نے 14سال تک ان کولیکچرربننے نہیں دیااورجب بن گئے توپروموشن نہیں دیا۔ اس کے باوجودانہوں نے استادکے احسانات کا تذکرہ ممنونیت کے جذبات کے ساتھ کیا۔(16)

صاحب مصباح اللغات مولاناعبدالحفیظ بلیاوی جوندوہ میں ان کے استادرہے پر ایک بڑالطیف اورمزایہ مضمون لکھا ہے ۔ مولاناعبدالحفیظ بلیاوی قاسمی تھے اورحنفی المسلک مگرمتوسع ومعتدل مزاح حنفی ،بعض متشدد حنفی ائمہ مساجد فجرمیں اسفارمیں جومبالغہ کرتے ہیں اُس پر پروفیسرصدیقی نے ان کا یہ لطیفہ نقل کیاہے کہ ”حنفی امام جب السلام علیکم کہ کردائیں جانب سلام پھیرتا ہے توحضرت آفتاب علیہ السلام دوسری طرف سے وعلیکم سلام کہتے ہوئے طلوع ہوجاتے ہیں“۔واقعہ یہ ہے کہ مولانا بلیاوی پر صدیقی کا یہ مضمون اس بلاکا پُرلطف اورمزاحیہ ہے کہ اس کوپڑھتے ہوئے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوئے بغیرنہیں رہا نہیں جاسکتا۔(یہ مقالہ صدیقی صاحب کی وفات سے چندماہ پیشترشائع ہوا)(17)اسی طرح انہوں نے پروفیسروحیدقریشی کوبھی یاد کیا جوکہ ان کے شعبہ تاریخ میں استادرہے تھے ۔وہ وضع داراورخاندانی رئیسں تھے اوراپنی خودداری ووضع داری میں کوئی حرف نہ آنے دیتے تھے۔ ان پر جومضمون لکھاہے وہ غالباً ان کی آخری تحریرہے کہ وہ صدیقی صاحب کی وفات کے بعد شائع ہواہے اورایک استاد کوشاگرد کا بہترین خراج عقیدت ہے۔(18)

پروفیسرصدیقی بڑے مجلسی ،یارباش اورحاضرجواب تھے۔ وہ بقول خود ابن صفی اورمشتاق احمدیوسفی وغیرہ کوپڑھنے کے رسیاتھے حالانکہ اس کا اثران کی اپنی زبان پر بہت زیادہ نہیں پڑاکیونکہ ان کی نثربڑی ثقیل ہے اوراس میں روانی کی بہت کمی ہے۔ مجلس کومختلف شخصیات ،اپنے استادوں ، شاگردوں،مختلف سیمناروں کی رودادوں وغیرہ کے تذکرے کرتے رہتے اورطرح طرح کے لطائف کے ذریعہ زعفران زاربنائے رہتے ۔ ان کی مجلس میں بیٹھ کریہ یقین نہیں آتا تھا کہ یہی شخص بڑے خشک موضوعات پر داد تحقیق دیتا اورحوالوں کے ڈھیرلگا تا ہے۔ بڑے خورد نوازتھے راقم کی جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ خوب سوال وجواب کرتااورکبھی ان کی جبین پر شکن نہ دیکھی گئی بلکہ پوری بشاشت وتوجہ سے سنتے اوربے تکلفی سے گفتگوکرتے ۔ میں دہلی میں رہتا تھا۔ایک بارعلی گڑھ آیا توان کو فون کیا کہ آپ کی زیارت کرنی چاہتاہوں،ہنس کربولے فوراً آئيے میں بھی آپ کی زیارت کا مشتاق ہوں۔ میں پہنچاتوگھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اوراپنی ذاتی لائبریری اوراپنی مطبوعات دکھائیں۔ رخصت ہونے لگاتوپوچھا ابھی علی گڑھ میں قیام ہے؟ اگر ہاںتوکل میرے ہاںآپ کی دعوت ۔میں دوسرے دن پہنچاتوپُرتکلف دسترخوان سجایا ہواتھا۔ کہنے لگے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے بنایاہے۔اس طرح کی یادیں بہت ہیں۔اوران سے ان کی باغ وبہارشخصیت کا پتہ چلتاہے۔ پروفیسرصدیقی مرحوم کے تحقیقی مقالات زیادہ ترمعارف اعظم گڑھ کی زینت بنتے تھے یاتحقیقات اسلامی علی گڑھ کی ۔ ان کی وفات کے بعدمعارف نے اچھاخراج تحسین پیش کیا تحقیقات اسلامی سے بھی یہی امیدکی جاتی ہے۔

یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ علی گڑھ میں مسلم لیگیت کے زیراثرابوالکلام آزادشکنی کی ایک روایت رہی ہے۔ شعبہ انگریزی کے مقبول ومعروف استادومحقق پروفیسراسلوب احمدانصاری کوآزاد سے ایک چڑھ تھی اوروہ ان کواپنی تقریروں وتحریروں میں مولوی ابواکلام آزادلکھ کراپنے دل کی بھڑاس نکالتے۔اوران کی تفسیرکوسرسیدکی تفسیرکا چربہ قراردیتے۔علی گڑھ کے اردوادب میں گل سرسبد مختارمسعوداورمشہورمزاح نگارمشتاق احمدیوسفی بھی آزادشکنی اوران کی ہجوگوئی میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔افسوس کہ پروفیسریسین مظہرصدیقی بھی اسی رومیں بہ گئے ۔چنانچہ پاکستان کی ایک مجلس میں وہ آزادکوشراب نوش کہ گئے (جوبالکل غلط روایت ہے)اسی طرح ایک مضمون ”ابواکلام آزاد میزان یوسفی میں “لکھا ہے ۔(19)بھلاکہاں اردوکا ایک مزاح نگاراورکہاں علوم قدیم وجدید کا جامع ابوالکلام آزاد!اسی طرح علی گڑھ کے ایک معاصراسلامی مفکراورصاحب طرزادیب کے بارے میں صدیقی مرحوم نے خودراقم خاکسارسے ناگفتتی تبصرہ کیاجونہ صرف بوداتھا بلکہ بالکل غلط تھا۔ مولاناسلطان احمداصلاحی مرحوم کے بارے میں بھی انہوں نے راقم سے خاصے منفی تاثرکا اظہارکیا تھا صرف اس وجہ سے کہ مولانامرحوم فقہی طورپر کسی کے مقلدنہ تھے بسااوقات وہ خودبہت سے مسائل میں اجتہادکرلیتے تھے جبکہ صدیقی مرحوم فقہیات میں ٹھیٹھ مقلدتھے۔ مولاناوحیدالدین خاں اورجاویداحمدغامدی صاحب کے بارے میں بھی ان کے رمارک مناسب نہیں۔(اللہ ان کی لغزشوں کومعاف فرمائے )اس لےے راقم کا خیال ہے کہ معاصرین واقران کے بارے میں پروفیریٰسین مظہرصدیقی کی رایوں پر زیادہ اعتمادنہیں کیاجاسکتا۔المعاصرة کالمنافرة مثل مشہورہے اورصحیح ہے۔

حواشی وحوالجات

1-دارالفکر،اس ادارہ سے اسلام اورسائنس کے موضوع پر وقیع کام انجام پایا ہے ۔ مدت تک یہاں سے ششماہی مجلہ آیات بھی نکلتا رہا۔اب ڈاکٹرمحمد ذکی کرمانی یوٹیوب پر سائنسی موضوعات پر مختصرلیکچرزکا اہتمام کررہے ہیں۔

2۔ فیصل ایوارڈ یافتہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی ،اسلامی معاشیات وفکراسلامی کے میدان میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ان کی وقیع کتاب مقاصد شریعت نے اہل علم وفکرکومتاثرکیا ہے۔

3۔ یاسین مظہرصدیقی ،عہد نبوی میں تنظیم ریاست و حکومت (مصنف کا مختصر)تعارف ص ۵ قاضی پبلشرزاینڈ ڈسٹری بیوٹرزنئی دہلی ،طبع اول 1988

4۔ مصادرسیرت نبوی ،دوجلدانسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی ،اب یہ کتاب پاکستان سے بھی چھپ گئی ہے۔

۔انگریزی ترجمہ پروفیسرعبدالرحیم قدوائی نےThe Prophet Mohammad (pbuh) A Role Medel for Muslim- 5 Minorities by M.Y Mazhar Siddiqi translated by Abdur Rahim Qidwai کے نام سے کیاہےLeicester UK 2006 سے چھپ گیا ہے۔

6۔ مثلا وہ معاہدہ جوعبد الرحمن بن عوف زہری نے مکہ کے ايک سرداراميہ بن خلف جمحی سے کيا ان کا ببان ہے کہ کاتبت امية بن خلف کتابا بان يحفظنی فی صاغيتی بمکة واحفظہ فی صاغيتہ بالمدينة (بخاری کتاب الوکالة باب اذا وکل المسلم حربيا فی دارالحرب ) يہ دونوں مکہ ميں دوست تھے اورحضرت عبدالرحمن نے اميہ کے بيٹے علی جمحی کو جنگ بدر ميں بچانا بھی چاہا تھا مگروہ ماراگيا حافظ ابن حجر کے مطابق رسول اکرم کو اس معاہدہ کا علم تھا ۔)ملاحظہ ہو محمد يا سين

مظہرصديقی ،مکی اسوہ نبوی

165،اسلامک بک فاونڈيشن نئی دہلی طبع اول اپريل۲۰۰۵ صفحہ 

7۔(واضح رہے کہ جوارايک اہم عرب سماجی قدرتھی جس کا عرب معاشرہ ميں بڑااحترام تھا،آپ نے مطعم بن عدی کی جوارطائف کے سفرکے بعد حاصل کی ،ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرکو جواردی ۔آپ ﷺ نے مکہ ميں رہ جانے والے مسلمانوں کو ،جن پر تشدد کياجا تا تھا بعض شرفاءمکہ کی جواردلوائی جيسا کہ صلح حديبيہ کے موقع پر حضرت ابوجندل کو حويطب بن عبد العزی اورمکرز بن حفص کی جواردلوائی ۔انہوں نے ضمانت لی کہ وہ ابوجندل کو ان کے باپ کے شرسے محفوظ رکھيں گے۔،مکی اسوہ نبوی ص ۲۹۳ ايضا صفحہ20 بلاذری ۱: 220ميں ہے فردہ رسول اللہ علی ان اجارہ حويطب بن عبد العزی ومکرز بن حفص وضمنا ان يکف اباہ عنہ

8۔ ملاحظہ ہو:یاسین مظہرصدیقی ،عہدنبوی میں تنظیم ریاست و حکومت قاضی پبلشرزاینڈڈسٹری بیوٹرزنئی دہلی ،طبع اول 1988 ص547تا749

9۔علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ،شہادت عثمان کا تاریخی پس منظرفاﺅنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی ،بخاری کا مطالعہ جلداول دوم سوم وہی ناشراوراس خاص موضوع پر مولانامحمداسحاق صدیقی سندیلوی ندوی ،علامہ حبیب الرحمن اعظمی ،مولانامفتی تقی عثمانی ،صلاح الدین یوسف ،مولانامحمدنافع ،مولاناعتیق الرحمن سنببھلی وغیرہم کی نگارشات ۔

10۔مولاناوحیدالدین خان خاتون اسلام باب سوم پردہ ص 250شائع کردہ گڈورڈ بکس نظام الدین ویسٹ نئی دہلی نیزشیخ البانی کی کتاب :جلباب المراة المسلمة

11۔ محمدیٰسین مظہرصدیقی ،نورمحمدی کا دینی وتاریخی استناد،تحقیقات اسلامی علی گڑھ جولائی تاستمبر2010

12۔ پروفیسریاسین مظہرصدیقی کا انٹرویوشایع کردہ محدث لاہورستمبر2020

13۔اظہارحقیقت ،یہ کتاب تین جلدوں میں ہے اورتاریخی روایات پر تحقیق وتجزیہ میں بے مثال ہے۔ پروفیسرصدیقی اپنے استادکی اس کتاب کے بڑے ثناخواں تھے۔

14۔ پروفیسریاسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں:”مولانامودودی ،قاری محمدطیب اورمولاناابوالحسن علی ندوی جیسے شیعی فکرکے حامل سنی علماءکا اس اجماع صحابہ (یزیدکی بیعت)کے بارے میں بارے میں ان کی مبینہ بزدلی اورمداہنت کا الزام لگانا عدالت ومرتبہ صحابہ کی توہین کے مترادف ہے۔ کیاصحابہ کوبھی خاصا ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے؟خلافت اموی خلافت راشدہ کے پس منظرمیں فروری 2010

15۔ تفصیل کے ليے دیکھيے :ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ،عالم اسلام کے مشاہیرص172مارچ 2014

16۔ پروفیسریٰسین مظہرصدیقی،استاذ گرامی نظامی،ماہنامہ تہذیب الاخلاق (مشاہیرعلی گڑھ نمبرجلددوم مارچ 2013ص194

17۔ فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی جون 2020ص73جلد57شمارہ ۲

18۔ فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی استادوحید،ستمبر 2020ص38

19۔ فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی دسمبر 2020ص43جلد56شمارہ 4


٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x