خاک میں کیاصورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

مولانا محمد فاروق خاں ؒبھی رخصت ہوئے۔

ابھی مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندویؒ کے جانے کاغم تازہ ہی تھاکہ عیدالاضحی سے ٹھیک ایک دن پہلے 28جون 2023 کومعروف ہندی واردومترجمِ قرآن،صاحب ”کلام نبوت“مولانامحمدفاروق خاں بھی رخصت ہوئے۔

             مولانامحمد فاروق خاں

         عیدالاضحی سے ایک دن قبل عید الاضحى منانے کے ليے اپنے صاحبزادے کے پاس لکھنو پہنچے تھے۔

کے گاوں عصرکے وقت ان کا انتقال ہوااورراجہ جی پورم میں نمازجنازہ اداکی گئی پھربذریعہ ایمبولینس ان سلطانپور لے جایاگیااوروہیں ان کی تدفین عمل میں آئی۔

وہ اسلام کے علاوہ ہندومذہب کے بھی ماہر،متعددکتابوں کے مصنف،فنافی العلم،قرآن کے شیدا،عارف نکتہ داں اورصاحب ذوق ومعرفت صوفی تھے۔حالانکہ خاصے عرصہ سے علیل تھے مگرباجماعت نمازکی حاضری نہ چھوٹتی تھی کہ ان کی نمازنمازعشق تھی۔ان کی گفتگوگہری مگرشگفتہ اورعارفانہ نکتوں سے بھری ہوتی اوران کے پاس بیٹھ کرجی لگتاتھا ؎ بہت لگتاتھاجی صحبت میں ان کی

مولانامحمدفاروق خاں ؒسلطان پورمیں پیداہوئے اوروہیں نشوونماپائی آج ان کے گاؤں میں ان کے نام پرالفاروق کالج ان کی یادگارہے۔جس کی بناوتکوین میں ان کے لائق صاحبزادے طارق انورندوی اورفاؤنڈیشن فارسوشل کیرلکھنؤ کے روح رواں مولاناظہیراحمدصدیقی صاحب کانمایاں کردارہے جومولانامرحوم کے خاص قدردانوں میں ہیں۔مولانافاروق خاں نوجوانی میں ہی جماعت اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے۔تعلیمی سلسلہ سے اعظم گڑھ آئے جہاں باضابطہ عصری تعلیم کے ساتھ ذاتی مطالعہ کے لیے دارالمصنفین سے خوب استفادہ کیا۔

پھرمرکزجماعت نے ان کی خدمات حاصل کیں چنانچہ انہوں نے شعبہ ہندی میں بہت سرگرمی سے کام کیا۔جہاں ان کے قلم سے ہندی میں قرآن پاک کاترجمہ سامنے آیاجوبہت مقبول ہوا۔اس کے علاوہ انہوں نے اردومیں بھی قرآن کاترجمہ کیاہے۔جس میں کئی مقامات پرانہوں نے والدماجدمرحوم علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ؒ کے ترجمہ وتفسیرکاتتبع کیاہے۔اس کے دوایڈیشن نکل گئے ہیں۔مولاناکے ہندی ترجمہ قرآن میں غیرمسلم ذہن کوسامنے رکھاگیاہے۔ان کے ترجمہ قرآن کے ذریعہ کئی غیرمسلموں کوقبول اسلام کی تحریک ملی۔

مولانانے ہندی ترجمہ قرآن میں بعدمیں حواشی بھی لکھے جن میں اختصارکے ساتھ قرآن کے تمام انسانیت کے ليے

خداکا آخری پیغام ہونے کوموثراندازمیں ابھاراگیاہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ہندومذہب سے متعلق بھی کئی کتابیں لکھیں۔

مولانافاروق خاں وسیع المطالعہ،وسیع المشرب اورصاحب فکرعالم ودانشورتھے۔مولانامودودی سے بڑی محبت کرتے ان سے مراسلت بھی رہی۔اس کے علاوہ ان کومولاناوحیدالدین خاں سے بھی قربت رہی قریبی رشتہ بھی رہا۔ خودمولاناوحیدالدین خان بھی مولانافاروق ؒصاحب کی صلاحیتوں کے معترف تھے اوران کوایک روحانی انسان کہاکرتے۔ یہاں تک کہ مولانافاروق صاحب کی شعری صلاحیتوں پر ایک مضمون بھی مولاناوحیدالدین خان نے اپنی عادت سے ہٹ کر لکھاہے۔ یادرہے کہ مولانافاروق خاں ایک باکمال شاعربھی تھے فرازتخلص کرتے اوران کادیوان شایع ہواہے۔ شعرمیں انہوں نے والدماجدعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی سے اصلاح لی تھی جوفن عروض کے بھی ماہرتھے۔جماعت اسلامی سے فکری وعملی وابستگی کے ساتھ ہی مولانافاروق خان فکرفراہی کے بھی خوشہ چینوں میں تھے اوراس مکتب فکرکے بڑے علماسے متاثر۔ بہت سے لوگ شایدیہ نہ جانتے ہوں کہ اس سب کے باوصف وہ تصوف کی طرف بھی میلان رکھتے تھے۔ بلکہ باضابطہ ایک شیخ طریقت سے بیعت تھے۔ تاہم قرانی الفکرہونے نے ان کوتصوف کی بہت سی نظری گمراہیوں اورضلالتوں سے بچائے رکھا۔

راقم خاکساربچپن سے ہی مولانا کا نیازمندرہا۔ بارہاان سے ملنے،ان کے پاس بیٹھنے اوران سے گفتگوکرنے کے مواقع ملے۔ پرانی دہلی میں جماعت کے قدیم دفترمیں جب بھی ان کے ہاں حاضری ہوتی وہ اپنے ہاتھوں سے ابوالکلامی چائے بڑے اہتمام سے بنا کرپلاتے اورہمیشہ کوئی نہ کوئی تحفہ دیتے۔ مولانامرحوم سے تعلقِ خاطراورنیازمندی کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ والدماجدعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی کے علوم ومعارف کے بڑے قدرداں تھے۔ یہاں تک کہ ان کی تفسیرسے استفادہ کی غرض سے وہ ایک باربرادرمکرم مرحوم مولاناانظارالحق ہدایتی کے ہمراہ ہمارے گاؤں رائدھنہ بھی تشریف لے گئے اورمفتاح القرآن کے تفسیری مسودوں کی فوٹوکاپی کراکے ساتھ لے گئے۔گاہے بگاہے والدمرحوم کے نام ان کے خط بھی آتے۔ایک بارانہوں نے والدمرحوم سے قرآء ات سبعہ اورسبعۃ احرف کے بارے میں اپنے اشکالات پیش کرکے ان کا جواب دینے کی استدعابھی کی اورحضرت والدمرحوم نے اس موضوع پر ایک مقالہ لکھنابھی شروع کیامگراپنی شدیدمصروفیات کے باعث وہ غالباً اس کوپورانہیں کرسکے اوردوصفحات سے آگے نہیں بڑھ سکے۔حضرت والدمرحوم کی کتاب ”بخاری کامطالعہ“کے سلسلہ میں انہوں نے کھل کراپنی پسندیدگی کا اظہارکیااوراس پر تقریظ لکھی۔

بہرحال راقم کایہ معمول رہاکہ جب تک دہلی میں قیام رہاگاہے بگاہے مولانافاروق خاں کی خدمت میں حاضری دیتااوران سے علمی وفکری غذالیتا۔علی گڑھ آنے کے بعداس معمول میں فرق آیاتاہم جب بھی دہلی جاناہواتوان کی خدمت میں حاضرہونے کی کوشش کی۔تفسیرمفتاح القرآن کی پہلی جلدشایع ہوئی تومیں کتاب لے کرحاضرہوا۔بڑے خوش ہوئے سینہ سے لگایااورراقم کے انکارکے باوجوداس کاہدیہ اداکیا۔

مولانافاروق خاں مرحوم ایک خاص روحانی اسلوب میں ڈوب کردرسِ قرآن دیتے تھے۔ان کادرس بلیغ اورمؤثرہوتا۔وہ نوجوانوں میں بھی بہت مقبول تھے اوران کے ذوق،معلومات اورفہم سے قریب تراسلوب میں گفتگوکرتے۔مولانافاروق خاں کتابیں جمع کرنے اورپڑھنے کے رسیاتھے۔ جب تک صحت بہتررہی دہلی کے دریاگنج کی اتوارمارکیٹ کاچکرضرورلگاتے اورکتابیں خریدتے۔ان کی ذاتی لائبریری میں بہت نادراورمنتخب کتابیں تھیں۔ جواخیرمیں انہوں نے غالباًمرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرزکودیدی تھیں۔ خاکسارکوبہت باران کی لائبریری سے استفادہ کرنے کاموقع ملا۔

مولانامرحوم کے پاس وہ کتابیں بھی مل جاتی تھیں

جوعام کتب خانوں اورلائبریریوں میں بھی آسانی سے نہیں ملتیں۔مثال کے طورپر عباسی صاحب کی کتاب ”خلافت ِمعاویہ ویزید“اوراس کا تکمہ راقم نے ان کے پاس ہی سب سے پہلے دیکھی اورپڑھی ۔اسی طرح مولاناعمراحمدعثمانی کی فقہ القرآن دوجلد(اب دہلی کے ایک مکتبہ نے بھی شایع کردی ہے۔)علامہ تمناعمادی کی کتابیں وغیرہ ۔

ذہن کی اسکرین پرمرحوم کی بہت سی یادیں تازہ ہورہی ہیں لیکن ان کوطوالت سے بچنے کے لیے کسی دوسرے مناسب موقع کے لیے اٹھارکھتاہوں۔

حق مغفرت کرے عجب آزادمردتھا۔

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x