موضوع:مستشرقین کے مطالعہ ئ ”دکن میں اشاعتِ اسلام“کاجائزہ

مستشرقین:تھامس واکرآرنولڈاوررچرڈ ایم ایٹن کی کتابوں کے خصوصی حوالہ سے) 

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی٭

موضوع کا تعارف:

سن1347ء میں علاء الدین اسماعیل گنگوبہمن نے دہلی سلطنت سے الگ ہوکرجنوبی ہندمیں بہمنی سلطنت کی بنیادڈالی جودوصدیوں تک قائم رہی۔ بعد میں یہ سلطنت مختلف چھوٹی ریاستوں میں بنٹ گئی جن میں بیجاپور،احمدنگر،برار،بیدراورگولکنڈہ کی سلطنتیں مشہورہیں۔ مغل سلطنت نے ان میں سے اکثرکا خاتمہ کردیاتھا۔ان کے علاوہ اٹھارویں صدی کی ابتداء میں عہدمغلیہ کی ایک مدبروفرزانہ شخصیت نظام الملک آصف جاہ نے 1720میں مملکت آصفیہ کی تاسیس کی جس کا پایہ تخت حیدرآباد تھا۔(۱)اس پورے عہدمیں علما وصوفیاء اورمشائخ نے دکن میں نہ صرف اسلام کی اشاعت کی بلکہ اسلامی علوم وفنون پر بھی گراں قدرکام کیا۔

مستشرقین نے عمومی طورپر تمام علوم اسلامیہ کواپنے مطالعہ وتحقیق کی جولان گاہ بنایاہے۔جن میں قرآن،حدیث،فقہ وسیرت وتاریخ کے علاوہ اشاعت اسلام کے موضوع پر بھی انہوں نے مطالعات کیے ہیں۔اس سلسلہ میں تھامس واکرآرنولڈ کا نام بہت معروف ہے اوربرصغیرمیں اشاعت اسلام کی تاریخ میں ان کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام یااسلام کی دعوت“ ایک ناگزیرعلمی حوالہ بن چکی ہے جوکہ اس سلسلہ کا نقش اول تھی۔تاریخ دعوت وعزیمت کے مصنف مولاناسیدابوالحسن علی اس کتاب کوبہت پسند ندوی ؒ نے

 کیاہے۔آرنولڈ اقبال کے بھی استاد تھے اوراقبال نے اپنے اس استاد کی یادمیں ایک نظم لکھی بعنوان:نالہ ئفراق

              جا بسا مغرب میں آخراے مکاں تیرامکیں       آہ مشرق کی پسندآئی نہ اس کوسرزمیں                           

            آگیاآج اس صداقت کا مرے دل کویقیں     ظلمت شب سے ضیاء روزفرقت کم نہیں (۲)

اورخودآرنولڈ بھی اقبال کی عظمتوں کے معترف تھے چنانچہ انہوں نے اقبال کے بارے میں کہا:”ہندوستان میں حرکت ِتجدید نے اپناممتازترین ظہورسرمحمداقبال کی شاعری میں حاصل کیاہے“(۳)

آرنولڈجب علی گڑھ میں تھے توان سے مولاناشبلی نے بھی استفادہ کیااورانہوں نے شبلی سے۔ علی گڑھ میں اِس کتاب کے چرچے تھے البتہ بعض حلقوں میں اس کتاب کے خلاف ردعمل بھی تھا۔(4)

اسی طرح مستشرق رچرڈ ایم ایٹن بھی ہندی اسلام کے مختلف پہلوؤں کے مطالعہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ان کا مختصرتعارف یہ ہے:

 رچرڈ میکس ویل ایٹن(عمر 80 سال) امریکی تاریخ دان ہیں جوگرینڈ ریپڈس، مشی گن، ریاستہائے متحدہ میں 8 دسمبر 1940 کوپیدا ہوئے یونیورسٹی آف وسکانسن،میڈیسن، ورجینیا یونیورسٹی، دی کالج آف ووسٹر میں تعلیم پائی۔ ان کی درج ذیل تصنیفات معروف ہیں:

The Rise of Islam and the Bengal, Essays on Islam and Indian History, A social History of Daccan, India in the Persianate  Age, Sufis of Bijapur 

 وہ ایریزونا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔انہوں نے جیساکہ گزرا 1800 سے پہلے کی ہندوستانی تاریخ کے حوالے سے کئی قابل ذکر کتابیں لکھی ہیں۔ صوفیاء  کے معاشرتی کردار اور عہدمتوسط کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ پر تحقیقی کام کا سہرا ان کے سرہے۔(۵)

ذیل کے مقالہ میں ہم اِنہیں دونوں خاص مستشرقین تھامس واکرآرنولڈاوررچرڈ ایم ایٹن کی کتابوں کے خصوصی حوالہ سے دکن میں اسلام کی اشاعت اوراس میں صوفیاء کرام کے کردارپر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اپنی کتاب”پریچنگ آف اسلام“ کے آغازمیں پروفیسرآرنولڈ بتاتے ہیں کہ ”ہندوستان میں اسلام کی دعوت پر تاریخ میں الگ سے کچھ نہیں لکھا گیا۔ کیونکہ مؤرخین عمومی طورپرجوتصویرپیش کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہند میں اشاعت اسلام کا مفہوم

یہ ہے کہ مسلمانوں نے فتوحات کے بعد اپنی مملکت قائم کی اوران کے جانشینوں نے اس کوقائم رکھا۔ یعنی ان کی تلوارہی اسلام کی اشاعت کا بھی سبب بنی جس کے لیے محمودغزنوی کے حملے،اس کے برہمنوں کے قتل عام،اورنگ زیب عالمگیر،حیدرعلی اورٹیپوکے ذریعہ غیرمسلم مفتوحین کی پرسیکیوشن کی

مثال پیش کی جاتی ہے۔(6) لیکن آرنولڈ سوال اٹھاتے ہیں کہ جوفاتحین آئے ان کی ذریت اوران کے ساتھ ترک وطن کرنے والے سپاہی وغیرہ بہت کم تھے جوزیادہ ترسلطنت کے انتظام اوراس کی بقاء کی جدوجہد میں لگے رہے۔ توآخربرصغیرمیں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان کہاں سے آئے؟صرف حملہ آوروں کی نسل توہونے سے رہی۔اس سوال کے جواب میں انہوں نے اپنی یہ تصنیف لکھی،وہ کہتے ہیں کہ:”ان مسلمانوں کی اکثریت جواپنے آپ کوغیرملکی مسلم القاب شیخ،بیگ،خان اورحتی کہ سیدسے بھی موسوم کرتی ہے ان کی اکثریت مقامی مذہب تبدیل کرنے والوں کی تھی جنہوں نے مختلف وجوہات کے تحت اپنے آپ کو مسلمان اشرافیہ سے وابستہ کرلیا تھا۔(۷)۔اِن میں سے بعض لوگوں نے توجبراً یامصلحتاً مذہب تبدیل کیا ہوگا(۸) مگرزیادہ تراسلام میں خوداپنی مرضی سے داخل ہوئے۔(۹)وہ مزید کہتے ہیں:”ہندوستانی مسلمانوں نے یایوروپی مصنفوں نے ملک کی جوتاریخ لکھی ہے وہ صرف جنگوں،خوں ریزمہموں اوربادشاہوں کے کارناموں پر مشتمل ہے۔ مذہبی زندگی کا بیان یہاں کم ہی ملتاہے جس کی کچھ جھلکیاں ہم کوصوفی مشائخ کے تذکروں وسوانح سے مترشح ہوتی ہیں“۔(10)موجودہ زمانے میں شیخ محمداکرام نے اپنے سلسلہ کوثریات،اورمولاناابوالحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت اورعزیز احمدنے ہندکی اسلامی ثقافت پر اپنی وقیع کتا ب میں اورخلیق احمدنظامی نے تاریخ مشائخ چشت میں صوفیاء کی دعوتی مساعی کوآشکاراکیاہے۔

دکن میں اسلام: آرنولڈلکھتے ہیں:”دکن میں بھی بہت سے مسلمان داعیوں نے کامیاب دعوتی کوشش کی۔ ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ عرب تاجرہند کے مغربی ساحلی شہروں میں آتے جاتے تھے۔انہوں نے کونکن کے علاقوں میں شادیاں بھی کیں۔بہمنی مسلم حکمرانوں (1347-1490)اوربیجاپورکے سلطانوں (1489-1686)کے زمانہ میں دکن میں مزیدعرب تارکین وطن آئے۔تاجروں اورسپاہیوں کے ساتھ ہی مبلغین اورداعی بھی آئے۔ انہوں نے تبلیغ اورعملی نمونہ سے دکن کے غیرمسلموں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ کیونکہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی رکارڈ موجودنہیں کہ ان سلطنتوں کے عہدمیں جبریہ مذہب تبدیل کرایاگیاہوکہ یہ حکمراں خاندان بڑے رواداراورمسامحت پسند تھے۔(۱۱)اِن داعیوں میں سے ایک داعی کا نام پیرمہابیرکھمبایت تھا (12)جودکن میں 1304میں آئے تھے۔بیجاپورکے کسانوں میں اُن جینیوں کی اولاداب بھی موجودہے جوپیرمعبرکے ذریعہ مسلمان ہوئے۔(13)اسی صدی میں گلبرگہ میں مشہورصوفی بزرگ سیدمحمدگیسودراز(حضرت چراغ دہلی کے خلیفہ)جن کومخدوم گیسودرازبھی کہتے ہیں اورجن کی خانقاہ آج بھی جنوبی ہندمیں ایک بڑاتعلیمی مرکزہے یہاں تک کہ اس درگاہ کے تحت ایک یونیورسٹی قائم ہوگئی ہے۔ان کے ہاتھوں پر پونااوربیلگام کے بہت سے ہندومشرف بہ اسلام ہوئے۔ (14) دھانومیں اسلام کے مشہورصوفی شیخ عبدالقادرجیلانی کے ایک رشتہ دارکے اخلاف ابھی تک قیام پذیرہیں۔جنہوں نے علاقہ کونکن میں بہت سے لوگوں کومسلمان بنایا،دہ دھانومیں ہی مدفون ہیں۔(15))اسی طرح ناسک میں ایک دوسرے بزرگ شاہ محمدصادق سرمست حسینی کے اخلاف پائے جاتے ہیں۔ جومدینہ سے 1568میں یہاں آئے تھے اورمغربی ہندکے بڑے حصہ کی سیاحت کرتے ہوئے ناسک میں مقیم ہوگئے تھے۔ان سے تقریبا50سال پہلے یہاں خواجہ خون منیرحسینی نے بھی تبلیغی جدوجہدکی تھی (16)بیلگام میں دواورمشائخ کی دعوتی جدوجہد کا تذکرہ کیاجاسکتاہے یہ تھے: سیدمحمدبن سیدعلی اورعمرعیدروس بشیبان۔(17)تبلیغی ودعوتی جدوجہد کے اس پورے سلسلہ کوپروفیسرآرنولڈنے مختصراًبیان کیاہے۔(18)

ضمنا یہ یہاں یہ تبصرہ بھی مناسب ہوگا کہ برصغیراوردکن میں اشاعت اسلام کے بارے میں آرنولڈنے کئی جگہ رواروی میں یہ بات دہرادی ہے کہ محمودغزنوی نے مندرتوڑے اورزبردستی لوگوں کومسلمان بنایا۔اسی طرح دوسرے مؤرخوں کی طرح وہ بھی اورنگ زیب عالمگیر،حیدرعلی اورسلطان ٹیپوکے بارے میں یہی الزام باربارلگاتے ہیں جس کے لیے انہوں نے تاریخ فرشتہ کا حوالہ دیاہے۔ مگراس مسئلہ میں وہ زیادہ بحث نہیں کرتے حالانکہ اِن تینوں حکمرانوں پر اس قسم کے الزامات کا پوراتجزیہ کرناضروری ہے۔

سلطان ٹیپوکے سلسلہ میں جبراًمسلمان بنانے کے لیے آرنولڈ نے مالابارکے باغی ہندووں کے نام سلطان کا فرمان نقل کیاہے۔مگرخوداس فرمان کے تجزیہ سے ہی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان کا اصل منشأ اِن باغیوں کوجبراًمسلمان بنانا نہیں بلکہ ان کومطیع فرمان بنانااورعورتوں کے تعلق سے جوان میں انتہائی غیرانسانی اورتہذیب سے گری ہوئی رسمیں جاری تھیں ان کا خاتمہ کرناتھا۔ان لوگوں میں رواج تھاکہ اگرکسی گھرمیں دس بھائی ہوتے توان میں صرف بڑابھائی شادی کرتااورباقی سب اس کی بیوی پر اپناحق سمجھتے۔اسی طرح ماؤں اوربہنوں کونیم عریاں رکھاجاتاان کوشوہرکی چتاکے ساتھ زبردستی جلادیاجاتا وغیرہ۔ان بری رسموں سے خواتین کونجات دلانے اوران باغیوں کومطیع فرمان بنانے کے لیے سلطان نے باربارکی مصالحانہ ومصلحانہ کوششوں کی ناکامی کے بعدایک فرمان جاری کیاتھاجس کا خلاصہ یہ ہے:

”تم لوگ باربارکی بغاوت اورعورتوں کے ساتھ ایسے بیہمانہ سلوک سے جس سے آپ سب لوگ ولدالزنا قرارپائیں مسلسل فہمائش کے بعدبھی بازنہیں آتے۔ اگرتم لوگ اب بھی اپنے کرتوتوں سے بازنہیں آئے تومیں تم سب کواسیربناکرسری رنگاپٹم لے جاوں گااورسب کومسلمان بنالیاجائے گا“۔(19)یہ ایک بغاوت کا مخصوص کیس ہے اوراس سے کوئی عمومی نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا۔اسی طرح اورنگ زیب عالمگیرکی مہمات وغیرہ اوربعض مندروں کوتوڑنابھی مخصوص کیس ہیں جن کودرست پس منظرمیں دیکھنا ضروری ہے۔سلطان محمودغزنوی نے باربارہندوستان پر حملے کیے۔اس کی بت شکنی اورہندووں کے قتل عام کاجوپروپیگنڈا کیاجاتا ہے اگران کودرست تناظرمیں دیکھا جائے تواس پروپیگنڈے کی بھی ہوانکل جاتی ہے۔ جیساکہ مشہور و ممتازمؤرخ رومیلا تھاپر نے سومناتھ مندرپر اپنی کتاب میں محمود کے حملوں اوربت شکنی کے واقعات کا تجزیہ کرکے ثابت کیاہے۔ تھاپر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ درباری مؤرخوں نے بہت سے واقعات کوخواہ مخواہ بڑھاچڑھاکربیان کردیا ہے۔مثلاسومناتھ پر حملہ اوربت شکنی کے واقعات کا جوبیان ابوالقاسم فرشتہ یادوسرے فارسی مصنفین  کرتے ہیں اس کا تقابل معاصرسنسکرت اورہندی،گجراتی وغیرہ کے مصنفین کے بیانات سے کیاجائے توزبردست فرق محسوس ہوتاہے حالانکہ یہ مفتوح لوگ تھے،ان کواپنی مظلومیت کی داستان زیادہ نمک مرچ لگا کربیان کرنی چاہیے تھی،اگرایسانہیں ہے تودرباری مؤرخوں کے بیانات مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ (20)

رچرڈایم ایٹن کا زاویہ نظرتھوڑاسامختلف ہے۔انہوں نے اپنے مطالعہ میں ایک سوال یہ قائم کیاکہ برصغیرمیں اوربالخصوص دکن میں اسلام تلوارکے زورپر نہیں پھیلابلکہ صوفیاء کرام کے ذریعہ پھیلا۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیاکہ صوفیاء بھی بالقصددعوت وتبلیغ کا ہدف نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے ذریعہ زیادہ تراشاعت اسلام کا کام بالواسطہ اورغیرمحسوس

طورپرہوا یعنی اسلام تصوف کا ضمنی حاصل ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ اکابرصوفیاء شیخ ابن عربی اوردوسروں کا نظام

 فکراتنادقیق،فلسفیانہ اورمتفکرانہ ہے کہ عوام الناس تک ان کی رسائی بڑی مشکل تھی۔

عہدمتوسط کے متعلق مصنفین ومؤرخین عموماًیہ توبتاتے ہیں کہ تصوف نے فاتحین اورمسلم بادشاہوں کے رویوں میں جوشدت تھی اوراس سے عام لوگوں میں اسلام سے جوتنفرتھا اورجو دوری تھی اس دوری کومٹانے کی کوشش کی اوراس شدت کوکم کیا۔ یعنی تصوف اسلام کی شان جمالی کا اظہارتھا۔ اسلامی ہندپر اہم لکھنے والوں جیسے عزیزاحمد،خلیق احمدنظامی،ایچ کے شیروانی،تاراچند،یوسف حسین خان اورتھامس واکرآرنولڈ،محمد مجیب اوراحمدرشید وغیرہ کی کتابیں بھی اسی خیال کا  اظہارکرتی ہیں۔ صوفیاکے ذریعہ نچلی ذات کے ہندو،صفائی کرنے والے کپڑے بننے والے طبقات نے اسلام قبول کیااورصوفیا نے الیٹ مسلمانوں کے برعکس ان کے ساتھ انسانی اورمساویانہ سلوک کیا۔واضح رہے کہ مسلم حکمراں اورامراء بھی مسلم غیرمسلم سے قطع نظرمعاشرہ کی اشرافیہ اوراراذل کی جاہلی تقسم کوروارکھے ہوئے تھے۔البتہ سوال یہ ہے کہ معاشرہ کے ان نچلے طبقوں تک صوفیااوران کی تعلیمات کی رسائی کیسے ہوئی کیونکہ صوفیاء کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ:

۱۔وہ مریدوغیرمریدمیں فرق کرتے ہیں اوراپنے احوال وکشف وغیرہ معتمد مریدین پر ہی ظاہرکرتے ہیں

۲۔ وہ اپنے علوم کشفی ووارداتِ شخصی کا اخفاء کرتے ہیں

۳۔ان کا لٹریچرفارسی میں ہے جس سے عام ہندوناواقف محض تھے۔

اورجیساکہ پروفیسرنکلسن بجاطورپریہ کہتے ہیں کہ ”تصوف اسلام کا مذہبی فلسفہ بھی ہے اورمذہب کا عوامی روپ بھی۔(21) تاہم مذکورہ تمام مصنفین صوفی لٹریچرکا حوالہ تودیتے ہیں مگروہ عوام اورتصوف کے لٹریچریاصوفیاکی تعلیمات کے درمیان رابطہ کیسے ہوااس کی کوئی تشریح نہیں کرتے۔رچرڈایٹن نے اسی سوال کا جواب اپنے مضمون

:Sufi Folk Literature and the Expansion of Indian Islam میں دینے کی کوشش کی ہے۔

ہندوستانی عوام تک اکابرین تصوف کی تعلیمات کیسے پہنچیں اوران کا اتناگہرااثرکیوں کرپڑا؟ اس سوال کے جواب میں رچرڈایٹن بتاتے ہیں کہ”یہ عملاً ان صوفیاء کا کمال ہے جومقامی رنگ میں رچ بس گئے تھے اورمقامی بولیاں انہوں نے اختیارکرلی تھیں۔ جنہوں نے تصوف کی تعلیمات اورمذہب کی اصل روح یعنی،خداسے محبت،بندوں کی خدمت،رواداری اورصلح کل،مفاہمت،محبت انسان اورمساوات بنی آدم وغیرہ کا عطرکشیدکرکے ان کوخوداپنے مخاطب عوام کی ان کی اپنی زبان اوربولی ٹھولی اوردیہاتی محاوروں اورلفظوں میں ڈھال کران میں زبردست تاثیراورکشش پیداکردی تھیں۔مثال کے طورپر دیہات کے لوگوں کے لیے انہوں نے جورسالے لکھے جولوگوں کی زبانوں پر چڑھ گئے ان میں چکی نامہ،چرخانامہ،شادی نامہ اورسہاگن نامہ وغیرہ ہیں جن کوعورتیں چکی پیستے ہوئے یاچرخا کاتتے ہوئے گایاکرتیں۔ اسی طرح شادی کے موقع پر جوگانے گایے جاتے۔یاشوہرسفروغیرہ پر جاتے توجن بولوں اورگیتوں سے عورتیں اپنے سہاگ کورخصت کرتیں اس کوسہاگن نامہ بولتے۔ ان لوک گیتوں کے ذریعہ جن کوصوفیاء نے وضع کیاتھااپنی تعلیمات کوانہوں نے مقامی سطح پر بہت وسیع حلقوں میں پہنچادیااورپورے دکن میں ان کا رواج ہوگیا“۔

(۲۲)

رچرڈ ایٹن لکھتے ہیں:”(میرا)استدلال یہ ہے کہ فوک لٹریچرکے دونوں ذرائع یعنی صوفیاء کے ذریعہ لکھے گئے عوامی رسالوں اوردرگاہوں دونوں نے مل کرعقیدت پر مبنی عوامی اسلام کی تشکیل کی۔ جس سے نان الیٹ طبقے اورخاص کرخواتین اورعام لوگ تصوف کے قریب آئے۔ سترہویں صدی سے شروع ہونے والایہ رجحان آج بھی موجودہے۔ چنانچہ درگاہوں پر خواتین زائرزیادہ آتی ہیں۔تاہم واضح رہے کہ جیسے عیسائی مشنریز ہوتے ہیں اسی طرح سے صوفیاء کواسلامی مشنریزیاپیشہ ورمبلغین نہیں شمارکرسکتے۔ کیونکہ صوفیاء نے کبھی بھی منصوبہ بندطریقہ سے دعوت وتبلیغ کا کام نہیں کیاجیسے کہ مسیحی مشنریز کرتے ہیں۔(بعض اکادکامثالیں استثنائی ہوسکتی ہیں،مقالہ نگار)بیجاپورکے صوفیاء کے حالات سے معلوم ہوتاہے کہ صوفیاء کی کشف وکرامات سے متاثرہوکرنان الیٹ اورخاص کرخواتین،مزدورودستکار مختلف صوفیاء کے ارادت مندہوجاتے تھے۔ بعض لوگ باقاعدہ بیعت بھی ہوتے تھے۔ان کی تبدیلی ئمذہب کو

  كنورزن نہیں کہاجائے گا۔بلکہ اپنے صوفی شیخ کے استرشادمیں آنے سے وہ بتدریج اسلام کے رنگ میں رنگ جاتے مگراپنے رہنے سہنے،پہننے اوڑھنے اورکھانے پینے کے قدیم طریقوں کوبرقراررکھتے اوروقت گزرتے ان کو اسلامی تہذیبی روایات کا حصہ بنالیتے۔ یوں صوفیا کی درگاہوں اور مزارات نے دکن کے عام لوگوں کواسلام کے دامن میں لانے میں غیرمحسوس طورپرایک بڑاکارنامہ انجام دیا(23)

پروفیسررچرڈایٹن کے مطابق شیخ برہان الدین جانم کے کسی مریدنے چکی نامہ لکھااسی طرح شاہ ہاشم خداوندہادی نے بھی۔چکی نامہ میں چشتی سلسلہ کے تصور وجود، تصورخدا،پیراورچکی پیسنے والی مریدکے رشتہ اورخدااورمادی وجودسے اس کے رشتہ کودیہاتی محاورے میں ادا کیا گیاہے۔بعض لائنوں میں شیخ ابن عربی کے فلسفہ تصوف کی چھاپ بھی نظرآتی ہے۔،(24)۔وہ مزیدلکھتے ہیں:

”صوفی فوک لٹریچرکے گیارہ مخطوطے دریافت ہوئے ہیں جن میں زیادہ ترچکی نامہ ہیں۔ان پر تاریخ مندرج نہیں ہے مگرجودکنی زبان ا ن میں استعمال ہوئی ہے اس کے مدنظران کوسترھویں صدی یااٹھارویں صدی کے اوائل کی طرف منسوب کیاجاسکتا ہے۔ایک چکی نامہ سترہویں صدی کے ایک اہم اورآزادمشرب بیجاپوری صوفی شیخ امین الدین علاء (متوفی 1675) کی طرف منسوب ہے۔( 25)دوسرا چکی نامہ شاہ ہاشم خداوندہادی (متوفی 1704-5)کی طرف منسوب ہے۔یہ شیخ امین الدین علاء کے خلیفہ تھے۔انہیں کے ایک اورمریدشیخ فاروقی نے ایک اورچکی نامہ لکھا۔(26)دوسرے اورچکی نامے بیجاپورکے ایک صوفی فی الحال قادری (تاریخ نامعلوم)کی طرف منسوب ہیں۔اورایک بیلگام کے چشتی صوفی شاہ کمال یاشاہ کمال الدین (متوفی 1809-10)کی طرف منسوب کیاجاتاہے۔جوانہوں نے اپنی اہلیہ کی فرمائش پر لکھا تھا(27)

اسی طرح ایک سہاگن نامہ کا مخطوطہ بھی پایاجاتاہے جسے بیجاپورکے ایک چشتی شیخ راجوقتال(متوفی 1681)نے ترتیب دیاتھا۔(28)جوترک وطن کرکے حیدرآبادآگئے تھے (29)ایک چرخانامہ کسی سالارنامی شخص کی طرف منسوب ہے مگراس کی اصلیت معلوم نہیں ہوسکی۔دواورچکی نامے دکن کے مشہورصوفی شیخ سیدمحمدبندہ نواز کی طرف منسوب ہیں۔تاہم ان کی اصلیت میں اس لیے شک ہے کہ کتاب کے اخیرمیں لکھنے والے کا نام بندہ نواز لکھاہے۔ جبکہ معلوم ہے کہ خواجہ بندہ نوازخوداس نام کواستعمال نہ کرتے تھے۔یہ لقب توان کودوسروں نے دید یاہے۔( 30)اوردوسرے اس لیے بھی کہ شیخ بندہ نواز کی وفات کے کوئی ڈیڑھ صدی بعدہی چکی نامے لکھے گئے ہیں۔اِن مخطوطوں سے یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ وہ مستندہوں یاغیرمستند،ہیں وہ سب صوفیاکے وضع کردہ۔اِن میں جومشترک مضمون ہے وہ (۱)خداکی محبت اوراس کی حمد،(۲)رسول اللہ ﷺ سے عشق،(۳) اپنے صوفی پیرکی عقیدت (4)گانے والی خاتون کی خوش عقیدگی (۵)اورصوفیانہ اذکارکا ورد جوگانے والی کی شخصیت کومنضبط کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ مختصرلوک گیت چشتی سلسلہ کے بزرگوں اوران کے مریدین کے لکھے ہوئے ہیں۔تیسرے دکن کے جوکبارمشائخ مصنف ہیں مثلاً شیخ میران جی شمس العشاق(متوفی 1499)شاہ برہان الدین جانم (متوفی 1597)اورشیخ محمدخوش ذہن (متوفی1617)وغیرہ نے یہ رسائل نہیں لکھے بلکہ یہ اِن مشائخ کے اخلاف ومسترشدین کے وضع کردہ ہیں جو سترہویں صدی یااٹھارویں صدی کے اوائل میں تھے۔(31)

اس طرح نہ صرف مسلمان مصنفین ومؤرخین بلکہ خودمستشرقین کے مطالعات بھی یہ بات پایہ ئ ثبوت کوپہنچادیتے ہیں کہ برصغیرمیں بالعموم اوردکن میں بالخصوص اشاعت ِاسلام میں تلوارکا اورفتوحات کا حصہ بہت کم رہاہے۔اس سلسلہ میں عرب تاجروں کی دعوت اورصوفیاء کرام کی بالواسطہ اصلاحی ودعوتی مساعی نے ہی اصل کرداراداکیا۔اوراگرتاریخ میں جبری تبدیلی ئمذہب کے اکا د کا واقعات کہیں ملتے بھی ہیں توان کی حیثیت استثنائی واقعات کی ہے۔اوراس طریقہ پر جولوگ مسلمان ہوبھی جاتے تھے وہ حالات کا جبرختم ہونے پر جلدہی اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ جاتے تھے۔(32)البتہ ابتدائی عرب مسلم غازیوں نے جہاں بھی حملہ کیاانہوں نے جنگ سے پہلے حریف کے سامنے قبول اسلام کرکے اپنے بھائی بن جانے کا آپشن بھی پیش کیا۔اِس کوجبراً اسلام قبول کروانانہیں کہاجاسکتا یہ تواسلام کے آئین جنگ کالازمی حصہ ہے۔(۳۳)

بہرکیف یہ دونوں مستشرقین اس بات پر متفق ہیں کہ دکن میں خصوصاً اورپورے ملک میں عموماً اشاعت اسلام کا کام صوفیاء کرام کے ذریعہ انجام پایا۔ تصوف کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ یہ زندگی سے فرارکا نام اوردنیا سے کٹ کرگوشوں اورکھوہوں میں جابیٹھنے کا نام ہے۔ لیکن تصوف کی تاریخ اس تصورکی نفی کرتی ہے۔ واقعہ تویہ ہے کہ تصوف کی روایت بھی بڑی وسیع اورمتنوع ہے۔اس میں وجودی صوفیاء بھی ہیں شہودی بھی۔متشدد بھی ہیں اوروسیع المشرب بھی،سیف وسنان سے کھیلنے والے بھی ہیں اورقلم کے دھنی بھی۔ خودموجودہ زمانے میں امیرعبدالقادرالجزائری،سنوسی سلسلہ کے بزرگان،داغستان کے امام شامل کی مثالیں توسامنے کی با ت ہیں۔ دکن اور بر صغیر میں بھی بہت سے نام صاحب سیف وقلم صوفیوں کے ہیں۔پروفیسررچرڈایم ایٹن کی کتاب

Sufis of Bijapur

  کے دوسرے باب کا عنوان ہے (مجاہدصوفیا)

 اس میں انہوں نے ان صوفیاء کا تذکرہ کیاہے جنہوں نے جہادوشہادت کی داستانیں رقم کی ہیں۔:The Warrior Sufis 

ان میں سے بعض صوفیاء نے جہاد کیااورشہادت بھی پائی البتہ زیادہ ترحالات میں ان کے جہادکی نوعیت صرف دفاعی تھی یعنی وہ جن علاقوں میں اپنے پیرومرشدکی ایماء پر گئے وہاں کے حکام اورراجاؤوں نے ان کورہنے کی اجازت نہ دی اوران کے کام میں مزاحم ہوئے توان سے جہادکی نوبت آگئی۔ جیسے سیدابراہیم شہیدجومدینہ سے آئے تھے اورپانڈیاحکمرانوں سے ان کی جنگ ہوئی تھی،یہاں تک ایک علاقہ پر انہوں نے بارہ سال تک اپنااقتداربھی قائم رکھا مگربالآخرراجہ کے مقابلہ میں شہید ہوگئے۔(34)ورنہ زیادہ ترصوفیاء اپنے بالواسطہ طریقہ ئدعوت اورصلح کل کے طریقوں سے کام لے کرعام لوگوں کویعنی سماج کے دبے کچلے لوگوں،غریبوں،اچھوتوں اورشودروں کواپنے سے قریب کیا۔انہوں نے فقہاء کی سی شدت نہیں دکھائی بلکہ عملی معاملات میں بہت زیادہ لچک دکھائی جس میں بہت دفعہ مبالغہ بھی ہوااورکفرواسلام کا فرق بھی مٹتاہواسا محسوس ہوا۔بہرحال ان بالواسطہ طریقوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کواپنی طرف متوجہ کیا۔

حواشی وحوالے:

۱۔مولانامودودی،تاریخ دولت آصفیہ، یہ کتاب عمومی معنوں میں تاریخ نہیں البتہ اِس میں اورنگ زیب عالمگیرکے بعدسلطنت مغلیہ کی ابتری اوردولت آصفیہ کے قیام کے اسباب پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔مطبوعہ فریدبک ڈپونئی دہلی)

۲۔کلیات اقبال ص 105خصوصی ایڈیشن،اقبال اکادمی پاکستان لاہورطبع1990)

۳۔ایضاص ۱۱)

4۔-ملاحظہ ہومولاناامین احسن اصلاحی دیباچہ تفسیرنظام القرآن جس میں انہوں نے مولاناحمیدالدین فراہی کا یہ تاثرنقل کیاہے کہ وہ اس کتاب کومسلمانوں کے اندرسے جذبہ جہادکوختم کرنے کی بساط کاایک مہرہ سمجھتے تھے:ص ۱۱،طبع دائرہ حمیدیہ فروری 2009

۔رچرڈایٹن کی ایک کتاب ہندوستان میں ہندومندروں کے انہدام کے بارے میں ہے۔5

Desecration of Temples in Muslim India اِس میں انہوں نے بتایاہے کہ محمدبن قاسم سے لیکراخیرمغلیہ عہدتک تقریبااسی (80)مندرڈھائے گئے۔کس سلطان یاحاکم کے زمانہ میں کس ریاست اورکس پرگنہ میں اورکب یہ تباہ کیے گئے اس کا تفصیلی چارٹ انہوں نے دیاہے۔ان کا کہناہے کہ مندروں کایہ انہدام خالصتاً سیاسی وجوہ سے ہوامذہبی اغراض کے لیے نہیں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایاہے کہ کئی مندرمغل سلاطین کی نگرانی وسرپرستی میں تعمیربھی کیے گئے تھے جیسے کہ ہندؤوں کے مشہورتیرتھ استھان متھرامیں برندابن کا گوونددیوکا مندرجو1550میں تعمیرکیاگیا۔

۔”Thus the missionary spirit of Islam is supposed to show itself in its true light in the brutal massacres of Brahmans by Mahmud of Ghazna, in the persecutions of Aurangzeb, the forcible circumcisions effected by Haydar Ali, Tipu Sultan and the like.(6)  The Preaching of Islam  Page 193

Census of India 1891 General report by J.A Baines P.167 London 1893

  اورایضاصفحہ 126-7

۸۔ص 194پریچنگ آف اسلام)

۹۔(ایضاص194)

10۔(ایضاص194)

۱۱۔The Bombay Gazeteer Vol,x p.132اوردیکھیں یہی گزیٹیرVol,xvi p.75 بحوالہ پریچنگ آف اسلام

12۔(شیخ محمداکرام نے پیرمعبری کھندائت لکھاہے۔جوعرب تھے اورمعبر(کارومنڈل)سے 1304میں دکن آئے اس لیے پیرمعبری کہلاتے تھے ان کے علاوہ اوربھی کئی مشائخ کا تذکرہ شیخ اکرام نے کیاہے ملاحظہ ہو: آب کوثرص356

۔ایضاVol,xxiii p.صفحہ 282-13

14۔(The Bombay Gazeteer Vol,xviii p.218-223)

15۔ایضا1l,xiii part I p.231

16۔ایضاVol,xvi  p.75-6)

17۔ایضا:Vol,xxi  p.203)“

18۔پروفیسرآرنولڈ،پروفیسرآف عربک یونیورسٹی آف لنڈن،یونیورسٹی کالج،پریچنگ آف اسلام Second Edition Revised. London Constable & Company Ltd 1913

۔ایضا:ص 19819

20۔ملاحظہ ہو: رومیلاتھاپر:Somnath, The many Voices of a History Penguin Books

۔ص  190 )Essay on Islam and India-21

۔ص199)Essay on Islam and India-22

۔ایضاصفحہ19023

24۔ایضا صفحہ196)کتاب میں ایٹن نے اوریجنل دکنی کے اشعارنہیں دیے بلکہ صرف ان کا ترجمہ نقل کرنے پر اکتفاکیاہے۔اگراصل اشعاربھی دیتے تواس سے ان کی تاثیرکا صحیح اندازہ ہوسکتاتھا۔

۔ایضاصفحہ 19225

ایضاصفحہ 19326

سخاوت مرزا،سیدشاہ کمال الدین رسالہ اردواپریل 1939 بحوالہ ایٹن 199327

۔تذکرہ اولیاء دکن دوجلد،عبدالجبارملک پوری حیدرآباد1912جلداول ص33728

ایضاصفحہ ص193)Essay on Islam and India-29

ایضاصفحہ ص193)Essay on Islam and India -30

۔صفحہ 194کتاب:Eassays on Islam and Indian History- 31

32۔ چنانچہ محمودغزنوی نے جب بلندشہرپر حملہ کیاتووہاں کے راجہ ہری دت نے دس ہزارلوگوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیامگربعدمیں وہ اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ گیا،ملاحظہ ہو:پریچنگ آف اسلام ص195)

۳۳۔مثال کے طورپر جارج ایلیٹ نے اپنی تاریخ میں لکھاہے کہ محمدبن قاسم نے حملہ سے پہلے ہندوراجہ کوقبول اسلام کی دعوت دی اوربعدکے فاتحین بھی ایساہی کرتے تھے(جلداص175-207)۔

34۔شیخ محمداکرام،آب کوثرص 354)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ

(یہ مقالہ 7-8اپریل 2021کومولاناآزادقومی اردویونیورسٹی حیدرآبادکے شعبہ اسلامک اسٹڈیزاورآئی اوایس نئی دہلی کے اشتراک سے عہداسلامی کے دکن میں اسلامی علوم کے موضوع پرمنعقدہ دوروزہ قومی سیمینار/ویبنارمیں پیش کیاگیا)

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x