مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم میں شدت کا سبب

ہندتوکے علمبرداراپنے بیک وقت کئی چہرے دنیاکے سامنے رکھتے اورکئی زبانیں بولنے کے ماہرہیں۔بلکہ یہ ان کی اسٹریٹیجی کا حصہ ہے۔ان کے کچھ لیڈرجہاں مسلمانوں کو”مسلمانوں کے دواستھان قبرستان یاپاکستان“کے نعرے لگائیں گے اوران کواس کی کھلی چھوٹ ہوگی وہیں دوسری طرف آریس سرسنگھ چالک کسی سبھامیں یہ بھی کہ دیں گے کہ ”مسلمانوں کے بغیرہندتوادھوراہے“ان کے اس بیان کولیکرپوراگودی میڈیا۴۲گھنٹے اس کوچلائے گااورلوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرے گاکہ دیکھوسنگھ تواداروادی ہے۔ابھی حال ہی میں ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچارمیں بھی اضافہ ہورہاہے اورمسلم نوجوانوں اورلڑکوں کے بے رحمانہ قتل کی وارداتوں میں بھی شدت آرہی ہے۔پورے ملک میں ان کے خلاف نفرت پھیلانے والوں میں نرسمہانندجیسے خبیث،کرنی سیناکے چیف (اب ہریانہ بی جے پی کے ترجمان)سورج پال سنگھ امواوران سب سے آگے بڑھ کرآگ اگلنے والے مقررپشپیندرکلشریسٹھ جگہ جگہ بڑی بڑی سبھائیں کرکے مسلمانوں کے خلاف زبردست پرچارکررہے ہیں۔پشپیندرغالباً علی گڑھ کا رہنے والااورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پڑھاہواہے۔اسی لیے ہندی اردوکی مکس زبان اورزبردست خطیبانہ صلاحیتوں کا حامل ہے۔آج کل اس کے جلسے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہورہے ہیں اورلاکھوں ہندواس کوسننے کے لیے امنڈتے ہیں۔یہ شخص تاریخی حقائق سے کھلواڑکرنے،الٹے منطقی استدلال کرنے میں ماہرہے۔وہ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے ڈائلاگ بولتاہے اورجذباتی ہندؤوں کی بھیڑنعرے لگاتی ہے۔ایک تقریرمیں اس نے کہاکہ ”میراسرکارسے مطالبہ ہے کہ اسلامی دورکی جتنی عمارتیں،جتنے شہراورعلامتیں ہیں سب کا نام ایک ہی دن میں بدل دے جیسے کشمیرمیں اس نے آنا فاناً میں سب کچھ کردیااورکوئی آسمان نہیں گراایسے ہی اگروہ ایساکردے گی توکچھ نہیں ہوگا۔اس نے کہاکروڑوں ہندوؤں کوآج ہی سے حیدرآبادکوبھاگیہ نگرلکھنااوربولناچاہیے۔اِس سے عدلیہ اورانتظامیہہ پریشرمیں آئے گی،میڈیاساتھ دے گااورہم میجارٹی میں ہیں ہماری چلے گی“۔اس نے سیکولرہندوؤں اورمسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوہے کہا:یہ کہتے ہیں گنگاجمنی تہذیب،ارے گنگابھی ہماری اورجمنابھی ہماری اورتمہاری تہذیب گئی گھاس چرنے“پڑھے لکھے مسلمانوں مثلاًحامدانصاری،عامرخان،سلمان خورشیدوغیرہ سے اس شخص کوخاص پرخاش ہے اوراپنی ہرتقریرمیں ان پرجملے کسنااوران کا تمسخراڑاناوہ نہیں بھولتا۔سابق فوجی جنرل جی ڈی بخشی،راکا سابق افسرآرایس این سنگھ اورپشپیندران تینوں کا تکون مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچارایک پلاننگ کے ساتھ کررہاہے۔جی ڈی بخشی میڈیامیں اکثرآتاہے خاص کررپبلک بھارت میں جواس ذلیل کھیل میں تن من دھن سے شامل ہے۔آرایس این سنگھ انگریزی اورہندی میں ویڈیوبناکریہ کام کرتاہے اورتینوں میں زیادہ خطرناک پشپیندرلاکھوں کے پبلک جلسوں کوخطاب کرتاہے اورہندونوجوانوں کوگمراہ کرتاہے۔پشپیندراوراس قسم کے دوسرے لوگ دراصل آرایس ایس اوربی جے پی کے ہراول دستہ ہیں۔اِس سے بی جے پی کوالیکشن میں توفائدہ ہوگاہی ہوگا،ہندؤوں میں مسلمانوں،ان کے کلچر،ان کے مذہب اوران کی تاریخ سے نفرت میں اضافہ ہوگاجوپہلے ہی عروج پر ہے۔غازی آبادمیں جوایک مسلمان بزرگ کے ساتھ وحشیانہ سلوک ہندوتوکے درندوں نے کیااورجس طرح بغیرکسی روک ٹوک کے مسلمان نوجوانوں کوگائے رکھشک ماررہے ہیں یہ دراصل اسی نفرت کی کاشت کی فصل ہے۔کروناوائرس کے مقابلہ میں مودی حکومت کی واضح ناکامی نے ان لوگوں کی جوکمیاں اورخامیاں عام لوگوں کے سامنے لادی ہیں جس پر گودی میڈیاپردہ ڈال دینے کی بھرپورکوشش کررہاہے۔اس سے اِس حکومت کے خلاف عام لوگوں میں ایک ناراضگی ہے،اس سے توجہ ہٹانے کے لیے اب وہی پراناآزمودہ نسخہ آزمایاجارہاہے کہ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ تیز کرواورہندؤوں کوان کے خلاف لام بندکرکے آنے والے اسمبلی اورلوک سبھاانتخاب میں ووٹ بٹورو۔مسلم مخالف مہم کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک توعام مسلمانوں میں ہندتواوراس کی خطرناکیوں سے آگاہی لانی ہوگی۔دوسرے مسلمانوں کومختلف مقامات پر لیگل ٹیمیں بناکرنفرت کے پرچارکوں کے خلاف کیس دائرکرنے چاہییں۔تیسرے مسلم نوجوانوں کوبے بسی کی موت مرنے کے بجائے حملہ آوروں کا مقابلہ کرکے جان دینی چاہیے۔اورتنہااوراکادکاسفرکرنے سے احترازکریں۔اپنی کالیونیوں اورمحلوں میں اکھاڑے قائم کریں اوراپنے دفاع کا سامان کریں،اس ملک میں جوصورت حال بنادی گئی ہے اورجوآئندہ اورشدیدہونے والی ہے اس میں خودحفاظتی تدبیروں کے سِواکوئی چارہ نہیں۔البتہ یہ یادرکھناچاہیے کہ ہنددتوکی ساری طاقت مسلم اورعیسائی مخالف پروپیگنڈااورنفرت ہے۔نفرت کی بنیادپر کوئی تحریک چل توجاتی ہے مگرزیادہ دنوں تک نہیں۔ہندوتوکے پاس عام لوگوں کے لیے کوئی مثبت پروگرام نہیں ہے،اس لیے یہ نفرت کی پرچارک یہ تحریک بھی ایک دن اپنی موت آپ مرے گی جیسے کہ جرمنی کے نازی ازم کا حال ہوا۔ محمدغطریف شہبازندوی

0 0 votes
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
Theme Kantipur Blog by Kantipur Themes
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x