یکم جنوری 1925وفات2021(پ
مولاناوحیدالدین خاں رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت ہوئی توراقم بہت بیمارتھا۔اس وقت چندسطریں لکھ دی گئی تھیں۔میری کتاب عالم اسلام کے مشاہیر2014میں شائع ہوئی تھی اس میں مولاناکے اوپر بھی ایک مضمون ہے۔جس میں ان کی خدمات کوسراہنے کے ساتھ ان کے بعض خیالات پر تنقیدبھی ہے۔وہ مضمون اب احباب کی نذرکررہاہوں۔ محمدغطریف شہبازندوی
مولاناوحیدالدین خاں ہمارے دورکے ایک عبقری مفکر،اردوکے بہترین دینی انشاء پردازاورعہدساز شخصیت ہیں۔۔مولانانئی نسل میں توخوب پڑھے جاتے ہیں لیکن علماء کے طبقہ میں ان کے پڑھنے والے کم ہیں۔وہ بنیادی طورپر سلیف میڈ آدمی ہیں۔غالبایہ کہنابے جانہ ہوگاکہ ان کے علم پر ان کے تفکرکا غلبہ ہے۔ مولاناوحیدالدین خاں نے عصری اسلوب میں بہت ساری کتابیں لکھی ہیں۔جن میں ان کی منصوبہ بنداورباضابطہ کتابیں توتعبیرکی غلطی،الاسلام،علم جدیدکا چیلنج،خاتون اسلام،اوران کی تفسیرتذکیرالقرآن اورپیغمبرانقلاب ہیں۔ باقی بعدکی زیادہ ترکتابیں ان کے ’الرسالہ‘میں شائع شدہ مضامین ہیں۔جن کومختلف کتابوں کی شکل دیدی گئی ہے۔ان کا لٹریچر،آڈیو،ویڈیووغیرہ کے واسطہ سے ٖCPSاورمکتبہ الرسالہ (گڈورڈ)کے ذریعہ پھیلایاجارہاہے۔مولاناکے ہاں ہفتہ وارکلاس بھی ہوتی ہے جس میں زیادہ عصری تعلیم یافتہ طلبہ وطالبات،ملازمت پیشہ لڑکے لڑکیاں اوربعض علماء بھی پابندی سے شریک ہوتے ہیں۔اوربعض ٹی وی چینلوں پربھی مولانا کے پروگرام نشرہوتے ہیں۔عورت کے سلسلہ میں مغرب کے ہاں جوافراط وتفریط پیداہوئی ہے اوراسلام نے اس کوجومقام دیاہے واقعاتی شہادتوں کی بناء پر مولانانے خاتون اسلام میں اس کابہترین تجزیہ کیاہے۔
مولاناوحیدالدین خاں یکم جنوری 1925کواعظم گڑھ کے ایک گاؤں میں ایک زمین دارگھرانہ میں پیداہوئے،والدکا سایہ بچپن میں ہی سرسے اٹھ گیا،والدہ نے ان کی پرورش کی۔گاؤں کے مکتب میں ابتدائی درجات کے بعدمدرسۃالاصلاح اعظم گڑھ سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔جہاں گرچہ انہوں نے فضیلت تک پڑھامگرکسی وجہ سے آخری درجہ کا امتحان نہیں دیا۔مدرسۃ الاصلاح میں مولاناامین احسن اصلاحی،مولانااختراحسن اصلاحی اورمولاناجلیل احسن ندوی وغیرہ سے انہوں نے شرف تلمذحاصل کیا۔اس کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی کی دعوت قبول کرلی اورتقریبا15سال جماعت میں رہے۔اصلاح کے فارغین عام طورپر فکرفراہی کے علمبردارہوتے ہیں مگرمولاناوحیدالدین خاں پر یہ رنگ نہیں چڑھا۔خاصاعرصہ جماعت اسلامی میں رہنے کے بعدان کومولانامودودی کی پیش کردہ تعبیردین کے سلسلہ میں شکوک وشبہات ہوئے،اورانہوں نے اس فکرکا باضابطہ تنقیدی مطالعہ شروع کردیا۔اس کے بعدجماعت کے چوٹی کے اہل علم سے اس بابت مراسلت کی جوقریبا۲سال جاری رہی،اس کے بعد مولانا اس فکرسے بالکل غیرمطمئن ہوگئے اوراس سے علیحدگی اختیارکرلی (یہ پوری روئدادانہوں نے اپنی کتاب تعبیرکی غلطی کے آغاز میں نقل کردی ہے)۔جماعت اسلامی کوچھوڑنے کے بعدمولاناکچھ دنوں تک دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس صحافت ونشریات سے وابستہ رہے۔وہیں ان کے قلم سے علم جدیدکاچیلنج جیسی شاہکارکتاب نکلی جس کے عربی وانگریزی ترجمے ہوئے اوربہت مقبول ہوئے خاص طور پر عربی ترجمہ الاسلام یتحدی نے عالم عرب میں زبردست مقبولیت حاصل کی۔
راقم نے مولاناکی اکثرکتابیں پڑھی ہیں،متعددباران کی صحبتوں میں بیٹھنے اوران کے پروگراموں میں شرکت کے مواقع ملے ہیں۔ان کے ماہانہ دعوتی خطابات سنے اورسنڈے کلاسزمیں حاضری دی ہے۔ اس میں دورائے نہیں کہ مغرب کی سائنسی فکرکے مطالعہ میں مولانانے کمال حاصل کیاہے حالانکہ یہ کہناذرامشکل ہی ہے کہ مغرب کی مجموعی فکرکا بھی ان کا مطالعہ وسیع ہے۔واضح رہے کہ وہ مغربی فلسفہ اورمغربی سائنس میں فرق کرتے ہیں اورمغربی فلسفہ کوسراسرمبنی بروہم اورکنفیوژن کاکیس مانتے ہیں۔ان کا مانناہے کہ جدیدتہذیب دراصل مغربی سائنسی فکرکی دین ہے نہ کہ مغربی فلسفہ کی۔ظاہرہے کہ اس بارے میں کوئی رائے دینے کے لیے مغرب کے وسیع مطالعہ وتحقیق کی ضرورت ہے۔انہوں نے انگر یزی تقریروتحریرکے ذریعہ غیرمسلموں کے اونچے طبقات،پڑھے لکھے نوجوانوں اور انٹیلیکچولز کے درمیان مقبولیت حاصل کی ہے۔مولاناکی سوچ،ایپروچ اورطرزتخاطب سائنٹیفک اورعقلی ہے۔امت کا المیہ ہے کہ وہ مولاناکا کوئی صحیح استعمال نہ کرسکی یامولانانے خوداس کا موقع نہیں دیا۔ دوسرے مسلمان، مفکرین اور مصنفین کے برخلاف غیرمسلم دنیاسے مولاناکی واقفیت براہ راست ہے۔انہوں نے کثرت سے سفرکیے ہیں،سفرنامے لکھے ہیں اوران سفروں کے درمیان دوسرے مذاہب کے نمائندوں سے باتیں کی ہیں۔مولانا کی خصوصیت یہ ہے کہ انگریزی کوذریعہ دعوت بنانے کے سبب وہ غیرمسلموں سے براہ راست رابطہ میں رہتے ہیں۔جبکہ دوسرے داعی اورعلمااگرغیرملکوں کا سفرکرتے بھی ہیں تب بھی ان کی رسائی صرف وہاں کے مسلمانوں تک رہتی ہے۔وہ مغربی ملکوں اورمغربی دنیاکا سفرخوب کرتے ہیں مگرمغرب کے لوگوں سے ان کاکوئی خلاملانہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف اسلامک سینٹروں،مساجداوردعوتی مراکزکے دورے کرکے آجاتے ہیں۔مولاناوحیدالدین خاں اس معنی میں واقعی داعی ہیں کہ وہ دنیاکے دوسرے انسانوں کوحریف نہیں بلکہ مدعوسمجھتے ہیں۔وہ ان سے نفرت نہیں کرتے بلکہ ان کواپنامخاطب بناتے ہیں۔مگریہ افسوس کی بات ہے بعض وجوہات کی وجہ سے مولانا عام مسلم کمیونیٹی سے جیسے کٹ سے گئے ہیں۔مولانااوران کا حلقہ خوداس کی توجیہ یوں کرتاہے کہ دنیابھرمیں مسلمان ماضی کی عظمت کی بحالی کی کوشش کررہے ہیں۔وہ اسلامی تحریکات کے اس لٹریچرکی وجہ سے جس میں ان کوخلیفہ اللہ بتایاگیاہے، پُر فخر نفسیات میں جینے کے عادی ہیں،عرب ہوں یاغیرعرب سب اپنے آپ کوخیرامت قراردیتے اور غیر مسلموں کے تعلق سے نظریاتی انتہا پسندی اورنفرت کا شکارہیں۔ان کا ذہن مثبت نہیں شکوہ وشکایت کا ذہن ہے۔اس وجہ سے مسلمانوں کومولاناکی فکراوران کی تحریروں سے کوئی خاص دل چسپی نہیں ہے۔ تاہم سچی بات یہ ہے کہ یہ کوئی یک طرفہ بات نہیں بلکہ اپنی انتہاپسندی کے باعث مولانابھی کئی باراپنے قلم سے مسلم بیزاری کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔مثال کے طورپر انہوں نے فلسطین کے معاملہ میں یک طرفہ طورپر اسرائیل اوریہودیوں کی حمایت کارویہ اختیارکیا،ہندوستان میں بابری مسجدکے بارے میں ان کے موقف کودست برداری سے تعبیرکیاجاسکتاہے۔مغربی قوتوں کے جارحانہ رویوں کی کبھی مذمت نہیں کی۔حدتویہ ہے کہ انہوں نے عراق پر امریکی حملہ کوخدائی آپریشن قرار دیا اور اس کوحضرت سلیمان اورملکہ ئسباکے قصہ سے مشابہت دے کرکہاکہ صدام حسین کوامریکہ کے آگے ہتھیارڈال دینے چاہیے تھے۔مصطفی کمال اتاترک کے بارے میں بھی اسی قسم کی رائے دی ہے۔اسی طرح لیبیاکے معمرقذافی اوربھارت کے ہندتووادیوں سے بھی ان کی بظاہرقربت رہی تھی جس کے بارے میں سوال کیے جانے پر انہوں نے کہاکہ انہوں نے اس طرح کے تمام مواقع کواسلام کی مثبت دعوت ان تک پہنچانے کیلیے استعمال کیا۔ہندوستان میں آزادی سے لیکراب تک ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں جن میں بہت سے فسادات کومسلم کشی کی مہم قراردینادرست ہوگا۔انتظامیہ،پولیس،عدلیہ اورسیاسی جماعتوں میں ہرجگہ مسلمانوں کے ساتھ تعصب ہوتاہے اورآرایس ایس کی فکرہرجگہ سرایت کرچکی ہے۔ اس وجہ سے ہرفسادمیں مسلمان ہی نقصان میں رہتے ہیں مگرمولانایک طرفہ طورپر فسادات کی ساری ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دیتے ہیں۔یہ ممکن ہے کہ بعض کیسوں میں مسلمانوں کی طرف سے زیادتی ہوگئی ہو مگر علی الاطلاق انہیں کوموردالزام ٹھیرانابڑی زیادتی کی بات ہے۔مولانااپنے عقائدودینی فکرمیں راسخ ہیں اوراس حوالہ سے ان سے مسلمانوں کوکوئی شکایت نہیں ہے۔بعض جذباتی اوربے علم لوگوں کی مخالفت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اصل مسئلہ مولاناکی سیاسی فکراورعملی رویہ رہاہے۔مسلمانوں اورخاص ہندی مسلمانوں میں مولاناسے خاصی بیزاری پائی جاتی ہے۔ان کے خلاف کئی کتابیں لکھیں جاچکی ہیں جن میں اکثرکا اسلوب ناشائستہ اورغیرمناسب ہے۔لیکن حق وانصاف کی بات یہ ہے کہ اس کی شروعات بھی مولانانے یک طرفہ کی اوراپنی جارحانہ تنقیدوں کا نشانہ ان شخصیات کوبنالیاجن سے مسلمانوں کے جذبات وابستہ ہیں۔مثلاحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی والدہ حضرت اسماء ؓپرتعریض کی،حضرت امام حسین ؓ،مجددالف ثانی،شاہ ولی اللہ،صلاح الدین ایوبی ان کے علاوہ دوسرے معاصرمصلحین اورعلما ء پربھی تیزوتندتنقیدیں کیں۔کوئی بھی ان کی تیراندازی سے بچ نہیں سکا۔
؎ ناوک نے تیرصیدنہ چھوڑازمانہ میں
سیداحمدشہید، اوران جیسی اورشخصیات پر جارحانہ نقدکیا،لکھاکہ وہ ”شہیدکے ٹائٹل لے کرشاندارقبروں میں لیٹ گئے“۔اپنے علاوہ دوسرے علما،شخصیات اور جماعتوں و تحریکوں کومطلقاًدین سے بے بہرہ اور فضول کام کرنے والاقراردیا۔خودان کومسلمانوں سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ان کی خدمات اوران کی جیسی بڑی شخصیت کا اعتراف نہیں کرتے۔مگرحق بات یہ ہے کہ خودمولانانے کبھی کسی کا اعتراف نہیں کیا۔ ان کے ہاں سب سے بڑامسئلہ راقم کویہی”اناولاغیری“کا نظرآتاہے جس نے ان کوسب سے کاٹ کررکھ دیاہے اوران کی خدمات کے دائرہ کوبہت محدودکردیاہے۔کچھ دنوں قبل انہوں نے مہدی ومسیح اوردجال وغیرہ نیز اخوان رسول جیسی بے محل بحثوں کا مستقل سلسلہ شروع کردیاحالانکہ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر ردوکدسے کچھ زیادہ حاصل نہیں ہے۔اس کے علاوہ ایک بڑی خامی یہ ہے کہ مولانا ہر میدان میں دخل درمعقولات کرتے ہیں۔(اب اس رویہ میں تبدیلی آرہی ہے)راقم کے نزدیک مولاناکی اصل حیثیت متکلم اسلام اورداعیئ دین کی ہے۔کاش کہ وہ اپنایہ مقام محسوس کرکے اپنے آپ کواسی تک محدودرکھتے!
جہاں تک مولاناکے سیاسی فکرکی با ت ہے تواس میں ایک ارتقاء محسوس ہوتاہے۔بلکہ ارتقاء شایدمناسب تعبیرنہ ہوبالکل تغیرمعلوم ہوتاہے، کیونکہ تعبیرکی غلطی اورالاسلام میں ان کی سیاسی فکراورتصوردین وہی ہے جوعام امت کا ہے۔مثال کے طورپر وہ کہتے ہیں:
”صحیح با ت یہ ہے کہ ایک آزادمسلم معاشرہ کا فرض تویقینایہی ہے کہ اپنے درمیان اسلام کی بنیادوں پر ایک سیاسی نظام قائم کرے کیونکہ اس کے بغیرمعاشرہ کے پیمانہ پرشریعت کی تعمیل نہیں کی جاسکتی مگرجہاں مسلمان اس حیثیت میں نہ ہوں وہاں اسلام ان کوخارجی زندگی کے لیے جوپروگرام دیتاہے وہ نصب امامت نہیں بلکہ انذاروتبشیرہے……پہلی صور ت میں حکومت قائم کرنااہل ایمان کا فرض ہے دوسری صورت میں حکومت ملنااللہ تعالیٰ کا انعام ہے“۔(تعبیرکی غلطی ص 306-307)اس کے علاوہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”جہاں تک غیراسلامی اقتدارمیں تغیرکے لیے جدوجہدکا سوال ہے یہ مسلم علاقہ میں توفرض علی الکفایہ کے درجہ میں مطلوب ہے مگرغیرمسلم علاقہ میں اس کی یہ نوعیت نہیں ہے……یہ ایک حقیقت ہے کہ حکومت واقتدارہرفکراورہر عقیدہ کے لیے ایک اہم ترین عنصرہے،حکومت کا مسلمان ہوناہرپہلوسے دین اوراہل دین کے لیے اپنے اندربے شمارفؤائدرکھتاہے اوراس اعتبارسے وہ یقینی طورپر اہل ایمان کی ایک پسندیدہ چیز (اخری تحبونہا)ہے اوراگرحالات اورمواقع موجودہوں تویقینایہ جدوجہدبھی ہونی چاہیے کہ اقتداربدلے اوراسلامی نظام حکومت کا قیام عمل میں آئے اس طرح کی مہم میں حصہ لیناعین جہادہے اوراس کی راہ میں جان قربان کرنایقینی طورپر شہادت کا درجہ پانا ہے۔“(الفرقان جولائی1964 ص 52)
اس کے برعکس اب مولانا بڑے شدومدسے یہ بات کہتے ہیں کہ اسلام دین ِدعوت ہے مسلمانوں کوبس دعوت کا کام کرناچاہیے،ان کے لیے اب اقتداروغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔جس مقصدکے لیے اقتدارمسلمانوں کوعطاکیاگیاتھا،وہ رول اب عالمی سیاسی نظام خودانجام دے رہاہے،اب ان کوتمام مواقع حاصل ہوگئے ہیں اوران مواقع سے فائدہ اٹھاناہی ان کا کام ہے۔ملاحظہ ہوں ان کے اپنے الفاظ:”اسلامی حکومت یاخدائی حکومت کا تصورقرآن میں سرتاسراجنبی (align)ہے۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت انسان کی ہوتی ہے نہ کہ اسلام کی اس لیے قرآن میں جہاں بھی حکومت کا لفظ آیاہے اُسے انسان کی طرف منسوب کیاگیاہے۔ …………(کتاب معرفت،تاریخ کائنات کا دوسرادورص 149تا151)
اس اقتباس سے ظاہرہوتاہے کہ اب مولاناکے نزدیک کسی بااختیاراورآزادمسلمان ملک میں بھی اقتدارکی ضرورت نہیں وہ بس دعوت کا کام کریں۔
مولاناکی کتاب تعبیرکی غلطی میں مودودی تصورِدین کی غلطی بتائی گئی ہے۔خودمولانانے مختصراً’تعبیرکی غلطی‘ میں اور’الاسلام‘میں وہی تصورِ دین پیش کیاہے،جوامت کا معروف تصوردین ہے۔جیساکہ گزرا(منحرف فرقوں کی بات یہاں نہیں ہورہی ہے)اوربقول ان کے جس سے انحراف کے نتیجہ میں مولانامودوی،سیدقطب اوران کے متبعین دین کی سیاسی تعبیرکرتے ہیں۔لیکن اس کے بعدکی تحریروں میں خود مولانا کے تصوردین میں ایک نمایاں فرق محسوس ہوتاہے۔مزیدتفصیل کے لیے یہ اقتباسات پڑھیے:
”میرے نزدیک اسلام کا اصل نشانہ فردہے نہ کہ اجتماع،اجتماعی تغیراس کا بالواسطہ جزء ہے نہ کہ براہ راست“(الرسالہ مارچ 1986ص 40) ”حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا مخاطب فردہے نہ کہ اجتماع،اجتماع کے اندروہ نفسیاتی واقعات ظہورمیں ہی نہیں آتے جواسلام کااصل مقصودہیں۔اجتماع کواسلام کا مخاطب بنانااسلام کوگھٹاناہے نہ کہ اس کومکمل کرنا“(الرسالہ: فروری 1988ص24)
مولانااپنی کتاب تبلیغی تحریک میں لکھتے ہیں:”قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین کا جومطلب میں سمجھاہوں وہ یہ ہے کہ دین کے تقاضے دوقسم سے تعلق رکھتے ہیں،ایک تقاضاتووہ ہے جودین کی اصل اور اس کی روح ہے،وہ ہے اللہ کی معرفت،اس سے خشیت ومحبت کاتعلق،اس کے اوپراعتماداوراس طرح مومن وقانت بن کرخداکی عبادت اورمعاملات زندگی میں اس کی تابعداری۔دوسراتقاضاوہ ہے جومادی دنیااوردین کے تصادم سے پیداہوتاہے،……جہاں تک پہلے تقاضے کا تعلق ہے وہ دین کی اصل ہے اوردائمی طورپر دین کے مطلوب کی حیثیت رکھتاہے مگردوسری چیز کی یہ حیثیت نہیں وہ دین کا اضافی جزء ہے نہ کہ حقیقی (تبلیغی تحریک ص 78-79)(اس اقتباس میں اضافی اورحقیقی کے معنی پر غورکیاجائے)
جون 1988کے الرسالہ میں انہوں نے لکھا:”انفرادی احکام علی الاطلاق مطلوب ہیں جبکہ اجتماعی احکام حالات کی نسبت سے مطلوب ہوتے ہیں“۔ اس بیان میں تھوڑامبالغہ ضرورہے اگرچہ اس کوبالکیہ غلط نہیں قراردیاجاسکتا۔
حال کی تحریروں میں مولانانے اسی بات کومتواتراوربتکراردہرایاہے۔جس سے یہ نتیجہ نکالناغلط نہ ہوگاکہ اب تصوردین کے بارے میں تعبیر کی غلطی اورالاسلام والے تصورِدین سے مولانانے رجوع کرلیاہے، اوراب اس میں نمایاں تغیر آگیا ہے۔(گرچہ اس بات کوکہیں کہانہیں ہے)۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ انفرادی اوراجتماعی احکام میں اس فرق کی انہوں نے کہیں کوئی دلیل نہیں دی ہے۔یہ سراسرمولاناکا اپنا استنباط واجتہادہے جودین کے مجموعی مطالعہ سے انہوں نے سمجھاہے۔اس کی پشت پر قرآن وسنت کی کون سی دلیل ہے؟حالانکہ انفرادی احکام ہوں یااجتماعی،ان کے لزوم کے لیے کچھ شرائط ہیں اگروہ شرائط نہ پائے جائیں گے تونہ انفرادی احکام فرض ہوں گے نہ اجتماعی۔
مثال کے طورپرحیض ونفاس والی عورت پر نمازفرض نہیں ہوتی،فقیرپر زکوۃ فرض نہیں ہوتی،حج کی استطاعت نہ ہوتووہ فرض نہیں ہوتا،حالانکہ یہ سب احکام انفرادی ہیں،اس لیے ان کوبھی علی الاطلاق مطلو ب نہیں کہ سکتے۔یہ بھی شرائط سے مشروط ہیں۔اجتماعی احکام کے فرض ہونے کے بھی شرائظ ہیں، مثلاآزاداسلامی معاشرہ وجودمیں آچکاہو،ذہنی طورپر معاشرہ شریعت کے نفاذکے لیے تیار کر لیا گیا ہو، یامسلمان کسی خطہئ زمین کوفتح کرچکے ہیں،وغیرہ۔مگرفرض ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ ہم ان ارکان اسلام کودین کے اضافی یاغیرحقیقی اجزاء کہ سکتے ہیں؟یہ سوال اس لیے پیداہوتاہے کہ قرآن وسنت میں جتنی تاکیدانفرادی احکام کی آئی ہے اتنی ہی اہمیت سے اجتماعی احکام بھی بیان ہوئے ہیں۔ توہم دونوں میں اتنابڑافرق کیسے کرسکتے ہیں؟
مزیدیہ چندسوالات بھی مولاناکے تصورِدین پر واردہوتے ہیں:
۱۔تاریخ ِدعوت کومولاناکے لٹریچرمیں جس طرح تقسیم کیاگیاہے، عقل یانقل سے اس کی کیادلیل ہے؟ مولانا سے پوچھاجاسکتاہے کہ یہ توصرف آپ کا استنباط اورفہم ہواجوتاریخ کے تجزیہ سے آپ نے سمجھاہے۔یہ کوئی مسلمہ یاشرعی دلیل کیسے ہوجائے گا؟ اس بات کی کیاضمانت ہے کہ آپ کایہ فہم واستنباط درست بھی ہو؟تاریخ انسانی کوجن ادوارمیں آپ نے تقسیم کرکے خودسے رسول واصحاب رسول کاایک رول متعین کردیاکہ انہوں نے جبرکے اقتدارکوتوڑدیااوراب امت مسلمہ کی ذمہ داری اس سلسلہ میں ختم،اس کوصرف ابلاغِ حق کرناہے۔(واضح رہے کہ حال کی تحریروں میں مولانانے اپنے اس مفروضہ اور حاصل مطالعہ کوبکثرت اوربارباردہرایاہے)حالانکہ اس ریڈنگ کی بھی آپ نے کوئی دلیل نہیں دی ہے۔تاہم آپ کے مطالعہ کی بنیادپر کوئی بات شرعی کلیہ کے طورپر یامسلمہ اصول کے طورپر کیسے کہی جاسکتی ہے؟زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ آپ کی رائے ہے۔
آپ کا کہناہے کہ اقتدارامرمقصودنہیں امرموعودہے (الرسالہ: جنوری 2014 ص46)یہ قرآن سے ثابت شدہ بات ہے مگرکیاکوئی امرموعودبھی بغیراس کے لیے جدوجہدکے حاصل ہوسکتاہے،مثال کے طورپر انسانوں کا رزق بھی موعودہے (ومامن دابۃ الاعلی اللہ رزقہا: ہود6 زمین میں چلنے پھرنے والی جومخلوق بھی ہے اس کی روزی اللہ کے ذمہ ہے) مگرسب کواس کے لیے زندگی میں دوڑدھوپ کرنی پڑتی ہے؟اس سوال کا کیاجواب ہوگا؟۔
فکراسلامی کے ذخیرہ میں انسان کا اللہ کا خلیفہ ہوناایک عام خیال ہے۔مفسرین کی اکثریت اس کومانتی آئی ہے۔تاہم عصرحاضرمیں مولانا مودودی اوران کے متبعین نے اس سادہ سے خیال کوایک فلسفہئ فکربنادیاہے۔یوں تواس بارے میں نہایت تحقیقی بحث میرے والدعلامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی نے اپنی تفسیرمفتاح القرآن میں کی ہے،اس کے بعداوربھی کئی اہل علم نے اس پر لکھاہے۔اس باب میں مولانا وحید الدین خا ں کا مسلک بھی اقرب الی الصواب ہے۔وہ مفسربھی ہیں اگرچہ ان کی تفسیرکا برصغیرمیں کوئی خاص چرچانہیں ہے۔البتہ اس تفسیرکا عربی ایڈیشن بھی مصرسے شائع ہوگیاہے۔اس میں کمی یہ ہے کہ ہرآیت کی تشریح نہیں ملتی ہے بلکہ مجموعہ ئآیات کی تفسیرکی گئی ہے۔تاہم تذکیرکے سلسلہ میں وہ بے حدمفیدکوشش ہے۔
مولاناوحیدالدین خاں نے جوعلم کلام پیداکیاہے وہ ان کی مختلف تحریروں میں بکھراہواہے خاص کر مذہب اورعلم جدیدکاچیلنج،اسلا م اورعقلیت،اسلام دورجدیدکا خالق،علما اوردورجدید،خاتون اسلام،فکراسلامی اورالرسالہ کے مختلف شماروں وغیرہ میں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے مختلف مباحث اوراقتباسات پر موضوعات کے لحاظ سے الگ الگ کتابیں تیارکی جائیں۔۔مثلاڈارون کی فکر کو اور مسئلہ ارتقاء کومولانانے کن کن دلیلوں سے ردکیاہے،وحدت ادیان کوکس طرح ردکیاہے۔بین المذاہبی ڈائلاگ کے بارے میں ان کا کیاکہناہے۔اسلام کے مختلف پہلوؤں پر جدیدفکرکوسامنے رکھ کر انہوں نے کیاکیادلیلیں دی ہیں وغیرہ۔(دس سال تک ان کے دست راست رہے مولانا محمدذکوان ندوی نے اس کام کی ابتداکی ہے اوراظہاردین کے عنوان پر ایک مبسوط کتاب تیارکردی ہے) خاتون اسلام ان کی ایک نہایت مفیدکتاب ہے جس کا تکملہ عورت انسانیت کی معمار ہے۔ مولانا کے بارے میں راقم کی مجموعی رائے یہ بنی ہے کہ وہ ایک ربانی صوفی ہیں جن کاتصوف کہاجاسکتاہے کہ مبنی برعقل یافکر((mindہے مبنی برقلب (heart)تصوف نہیں۔ان پر فکرکا غلبہ ہے جذبہ کانہیں۔ان کی کتابوں کے مطالعہ سے آخرت کی یادآتی ہے۔خداکی عظمت پیداہوتی ہے۔خداکے وجود، اور نعمتوں پر اس کے شکرکا جذبہ پیداکرنے میں ان کی تحریروں سے مؤثراورکسی مصنف کی تحریرنہیں لگتی۔ مولاناکے ہاں جہاددفاع کے لیے مشروع ہے،وہ جہادہجوم کے قائل نہیں۔موجودہ دورکی طبیعتوں کویہ رائے ہی زیادہ اپیل کرتی ہے اوراس رائے کے ماننے والے عہدجدیدکے بہت سارے اسلامی مفکرین ہیں۔ البتہ راقم خاکسارکے نزدیک زیادہ بہتریہ ہے کہ اس کی یوں وضاحت کی جائے کہ اصولاًدفاع کے علاوہ صحابہ اورنبی ﷺ کے لیے اصلاح ِحال کے لیے بھی جہادمشروع توکیاگیاتھا اوریہ اس زمانہ کے عرف کے مطابق تھامگرعصرحاضرمیں عملاًاس کا انطباق نہیں ہوسکتا،کیونکہ اس کی شرائط نہیں پائی جاتیں یعنی آج جہادہجوم کے لیے حالا ت نہیں ہیں۔ مولانانے اجتہادکے مسئلہ پر بھی قلم اٹھایاہے اوراس پر اپنی تحریروں میں کافی زوردیاہے کہ جدیدمسائل کے حل کے سلسلہ میں اجتہاد کیاجانا چاہیے۔ اس سلسلہ میں مزیدبولڈ قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے بہت سے مسائل میں اپنی رائیں دی ہیں اور موجودہ دورمیں ان کی رایوں کاوزن محسوس کیاجاتاہے۔اگرچہ لوگ ان کاحوالہ نہیں دیتے لیکن یہ امرواقعی ہے کہ جدید تہذیب کے مفید پہلوؤوں، نیز موجودہ فکراسلامی کوکن کن مسائل میں نئی رائے بنانی چاہیے مثلا جمہور یت سیکولرزم،دارالاسلام ودار الکفر، دارالدعوۃ وغیرہ مسئلوں میں انہوں نے جرأت مندانہ اظہار خیال کیا ہے۔اس کے بعداب دوسرے لوگ بھی یہ باتیں کہنے لگے ہیں۔
مولاناوحیدالدین خاں اردوکے ایک صاحب طرزادیب اورانشاء پردازہیں۔ان کے قلم میں بلاکی سحرطرازی ہے۔چھوٹے چھوٹے جملوں پر مشتمل ان کی تحریرمیں وضوح اورclarityکابڑااہتمام ہے اورزبردست حسن وتاثیرہے۔عربی کے ادیب طٰہ حسین سے ان کویک گونہ مشاہبت ہے اوریہ حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں طٰحہ حسین سے بڑاادیب عرب دنیاپیدانہ کرسکی۔مولاناوحیدالدین خاں کا اسلوب سائنٹیفک ہے۔ان کے ہاں یہ جدت ہے کہ وہ انگریزی کے پورے پورے جملے لکھ جاتے ہیں،بسااوقات ان کااردوترجمہ بھی کردیتے ہیں اورکہیں کہیں ترجمہ نہیں کرتے۔البتہ کبھی کبھاروہ ایساوہاں بھی کرجاتے ہیں جہاں ان کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
تاہم راقم کے نزدیک مولاناکے لٹریچرمیں ایک نقص تکرارمضامین کاہے۔وہ جوبا ت اب سے چالیس سال پہلے لکھ چکے ہیں اسی کولفظ بدل بدل کر اب بھی لکھ رہے ہیں۔بسااوقات مثالیں بھی وہی ہوتی ہیں۔یقینابعض نئے مضامین کا اضافہ بھی ہے مثال کے طورپرگلوبل وارمنگ، Climate Changeدجال،مہدی ومسیح وغیرہ پرحال کے دنوں میں انہوں نے خوب لکھاہے۔مولانااس تکرارمضامین کواپنے کلام کی خوب اوراسے قرآنی اسلوب بتاتے ہیں،ممکن ہے ایک حدتک یہ بات درست ہوتاہم مضامین کی اس طرح تکرارانسانی کلام میں نقص ہی معلوم ہوتی ہے۔دوسری بڑی کمی اس لٹریچرکی یہ ہے کہ اس میں ابتدائی چندکتابوں کوچھوڑکراکثرمیں ضروری حوالوں کی کمی ہے۔ خاص کراصل مصادرسے استفادہ محسوس نہیں ہوتااکثرثانوی مراجع پر اعتمادکرلیاجاتاہے۔اسی طرح بعض اوقات مولاناکسی قرآنی آیت یاحدیث سے استدلال کرتے ہیں توجتنے فقرہ سے ان کی بات بنتی ہے اتنالے لیتے ہیں۔اس کے سیاق وسباق کونظراندازکرجاتے ہیں۔مثال کے طورپرانہوں نے آیت کریمہ: یٰقوم ادخلواالارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم ولاترتدواعلی ادبارکم فتنقلبواخاسرین(المائدہ:21)اے میری قوم کے لوگوں اس سرزمین میں داخل ہوجاؤجواللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے،اوراپنی پیٹھ پر نہ پھِروکہ ایساکرنے سے تم گھاٹے میں رہوگے)سے یہود یوں کی فلسطین واپسی اوراسرائل کے قیام کے جوازپرتو استدلال کرلیامگراسی آیت کے دوسرے فقرہ میں بنواسرائیل سے کیاکہاگیاہے اس کوبالکل نظرانداز کردیا۔اس قسم کی مثالیں اوربھی ہیں۔راقم کے نزدیک مولاناکے لٹریچرکا یہ ایک بڑانقص ہے۔اس کے علاوہ واقعاتی غلطیاں بھی ان کے میں لٹریچرمیں بکثرت پائی جاتی ہیں۔جن کی مثالیں دینے سے یہ مضمون بہت لمباہوجائے گا۔بہرحال مولانااس دورکے ایک اہم دانشورومفکرہیں اور وہ مسلمانوں و غیر مسلموں کے مابین ایک پل کا کام دے سکتے ہیں۔علماء اوردوسرے لوگوں کوان کی جارحانہ اوربے محاباتنقیدکے بجائے خذماصفاودع ماکدرکے قاعدہ کے مطابق ان کی مفیدچیزوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
مولاناکے مشن اورالرسالہ تحریک یاسی پی ایس میں ایک خاص کمی یہ ہے کہ مولاناخان صاحب نے کوئی سکنڈ لائن تیارنہیں کی ہے۔اورنہ اس طرف ان کا کوئی ذہن ہے۔حالانکہ تحریکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک شخص کوئی تحریک اٹھاتودیتاہے مگراس کے مشن کوباقی رکھنے کے لیے ہمیشہ سکنڈلائن کی ضرورت ہوتی ہے جواسے آگے لے جاتی ہے۔